نئی قانون سازی، حلقہ بندیاں، بلدیاتی الیکشن اس سال ہوتے نظر نہیں آرہے: رپورٹ
اسلام آباد (انعام اللہ خٹک / دی نیشن رپورٹ) صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی سطح پر حلقہ بندیوں کے حوالے سے نئی قانون سازی کا ٹاسک دیئے جانے اور الیکشن اتھارٹیز کی جانب سے اس نئے قانون سازی کی روشنی میں ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے مزید وقت مانگنے کے تناظر میں بلدیاتی الیکشن اس سال ہوتے نظر نہیں آتے۔ 19 مارچ کو سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی الیکشن کی نئی حلقہ بندیوں کیلئے نئی قانون سازی کیلئے 5 ماہ کا وقت دیا تھا۔ الیکشن کمشن کو وفاقی اور صوبائی حلقوں کے مطابق کام کرنے کا کہا تھا۔ الیکشن کمشن کے ایڈیشنل سیکرٹری شیرافگن نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ عدالت نے الیکشن کمشن کو کہا وہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے قانون سازی کے بعد 45 دنوں کے اندر حلقہ بندیاں مکمل کرلے۔ 45 دنوں میں یہ کام مکمل کرنا ناممکن ہے لہٰذا الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ سے اس حوالے سے 6 ماہ کا وقت دینے کی درخواست کی ہے۔ ڈی جی الیکشن کمشن افضل خان نے کہا کہ آرٹیکل 224 میں ترمیم کیلئے الیکشن کمشن کا سارا انحصار سیاسی جماعتوں پر ہے تاکہ اس کے بعد وہ بلدیاتی سطح پر بھی حلقہ بندیاں کرسکے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کو 15 نومبر تک بلدیاتی الیکشن کرانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ تاہم حکام کو خطرہ ہے کہ یہ کام بروقت مکمل نہیں ہوسکے گا۔ صوبائی حکومتوں نے قانون سازی کیلئے اقدامات شروع نہیں کئے۔ صوبائی حکومتیں اگر جولائی یا اگست تک قانون سازی مکمل بھی کرلیں تو الیکشن کمشن کو انتخابات کرانے میں کم از کم 10 ماہ لگیں گے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد کمشن کو نئے حلقوں کے مطابق ووٹرز کی فہرستیں بھی دوبارہ مرتب کرنا ہونگی۔ الیکشن کمشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے کہا میرے خیال میں اس سال بلدیاتی انتخابات نہیں ہونگے۔ صوبائی حکومتوں کو ایک قانون بنانے کیلئے جسے راتوں رات بھی بنایا جاسکتا تھا 5 ماہ دیئے گئے جبکہ الیکشن کمشن کو صرف 45 دن دیئے جارہے ہیں۔