• news

کرکٹ اور کرکٹر خود پی سی بی کے ہاتھوں غیر محفوظ

سنا جا رہا تھا کہ لاہور کرکٹ ایسوسی ایشن کی گرائونڈ میں سابق کرکٹر احتشام الدین اور سابق فسٹ کلاس کرکٹر اشفاق کے لئے بینفٹ میچ کی تیاریاں جاری ہیں یہ بات بھی سماعتوں تک پہنچی کہ میچ قذافی سٹیڈیم میں بھی ہو سکتا ہے اس بینفٹ میچ کے لئے قومی کرکٹ ٹیم کے کئی ایک کھلاڑیوں نے اپنی دستیابی ظاہر کر دی تھی جب کہ 90ء کی دہائی کے چند نامور کھلاڑی بھی اس کرکٹ میچ کا حصہ بننے کے لئے تیار تھے۔ پھر یوں ہوا کہ کرکٹ بورڈ کے صدر دفتر سے فرمان کے مطابق، قومی کرکٹ ٹیم کے نمایاں کھلاڑیوں کو اس میچ میں شرکت سے روک دیا گیا وجہ یہ بتائی گئی ہے اس میچ کے چیف آرگنائزر سابق کپتان سلیم ملک ہیں تمام انتظامات مکمل تھے عین وقت پر اس شاہی فرمان کے بعد بینفٹ میچ تاخیر کا شکار ہو گیا تاہم ٹیسٹ کرکٹر اکرم رضا کہتے ہیں کہ صرف یہ میچ نہیں بلکہ اس طرح کے میچز جن سے سابق کھلاڑیوں کی مالی معاونت کی جا سکے ہوتے رہیں گے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر اکرم رضا کے اس بینفٹ میچ سے سلیم ملک اور ان کے ساتھیوں نے احتشام الدین کو پانچ لاکھ روپے دینا تھے سابق ٹیسٹ فرسٹ کلاس کرکٹر اشفاق احمد کو تین لاکھ روپے اور ایک موٹر سائیکل دینے کا انتظام بھی کیا گیا تھا جب کہ اچیومنٹ ایوارڈز کی مد میں بھی کئی لاکھ کے انعامات رکھے گئے تھے ۔ پاکستان انڈر 19 ٹیم کے کرکٹرز کو حوصلہ افزائی کے لئے نقد انعامات کا بندوبست تھا۔ منتظمین میں شامل سابق ٹیسٹ کرکٹر اکرم رضا کے مطابق کم از کم 12 لاکھ روپے کے نقد انعامات سابق اور موجودہ کرکٹرز اور کرکٹ آرگنائزر کے لئے مختص کئے گئے تھے۔
سلیم ملک میچ  فکسنگ کے الزامات کی وجہ سے ایک عرصے سے کرکٹ کے معاملات سے دور ہیں ان پر جسٹس قیوم کمشن رپورٹ نے تاحیات پابندی کی سزا سنائی تھی۔ اس رپورٹ میں ان کے ساتھ وسیم اکرم، انضمام الحق، سعید انور، مشتاق احمد، عطاالرحمن اور وقار یونس بھی شامل تھے۔
اکتوبر 2008ء میں لاہور کی سول عدالت کے جج ملک محمد الطاف نے سلیم ملک کے دعوے کو منظور کرتے ہوئے انہیں کرکٹ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔ سلیم ملک نے تاحیات پابندی کے خلاف سول کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی مئی 2008ء میں سپریم کورٹ نے ان کا مقدمہ سول کورٹ یہ کہہ کر واپس کیا تھا کہ وہی اسے سننے کی مجاز ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ کہا تھا کہ وہ سلیم ملک کی پابندی ختم کرنے کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں  کرے گا اور اس فیصلے سے آئی سی سی  کو باضابطہ طور پر آگاہ بھی کرے گا۔ سن 2000ء میں بھارت کے سابق کپتان اظہر الدین پر بھی اسی معاملے میں تاحیات پابندی  عائد کی گئی تھی جسے بی سی سی آئی نے اٹھا لیا تھا۔ اب معاملات سمجھ میں آ جانے چاہئیں کہ کون کیا کر رہا ہے کرکٹ کے معاملات میں سب کو آزادی حاصل ہے سوائے سلیم ملک کے اس کی وجہ یہ نہیں کہ سابق کپتان میچ فکسنگ کے سب سے بڑے مجرم ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق اس کرکٹ بورڈ سے ہے جو انتہائی کمزور ہے۔ اظہرالدین ، اجے جدیجا، وسیم اکرم، مشتاق احمد، وقار یونس، ماردن سیموئلز، ہرشل گبز یہ سب کون ہیں۔ کیا یہ سب دودھ کے دھلے ہیں۔ اکیلا سلیم ملک ہی قربانی کا بکرا کیوں؟ پاکستان کرکٹ بورڈ نیکی کے کام میں روڑے نہ اٹکائے آج عامر کی واپسی کی بات ہو رہی ہے جو کہ سزا یافتہ ہے سلیم ملک کو تو عدالت نے آزادی دی ہے پھر پابندی کیوں ہے؟ معاملے کو سلجھانے کی ضرورت ہے احتشام الدین، اشفاق اور کئی ایک ضرورت مند اور حقدار کھلاڑیوں کی مدد ہونے والی تھی تو کرکٹ بورڈ حرکت میں آگیا ادھر پشاور میں آل پاکستان انٹر یونیورسٹی کے میچز نا ہموار غیر معیاری گرائونڈز اور گیلی وکٹوں پر ہو رہے ہیں ناقص امپائرنگ کی شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں ہم پڑھے لکھے کھلاڑیوں کی کمی کا رونا روتے ہیں اور آل پاکستان انٹر یونیورسٹی کے میچز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے کھلاڑیوں کے ساتھ پشاور کے کھیلوں کے ذمہ دار نے صوبائی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے نازیبا زبان استعمال کی۔ کیا استادوں کو ایسا رویہ زیب دیتا ہے۔  اس پر بھی کوئی حرکت میں آئے، نچلی سطح کی کرکٹ بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ کرکٹ اور کرکٹر خود پی سی بی کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن