برطانیہ کو عیسائی ملک کہنے پر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر شدید تنقید‘ معاشرے میں علیحدگی‘ بیگانگی اور تقسیم کو تقویت ملے گی: معترضین
لندن(اے این این) برطانیہ کو عیسائی ملک کہنے پر وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو تنقید کا سامنا،اہم شخصیات نے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے دعوئوں سے ہمارے سماج میں علیحدگی ،بیگانگی اور تقسیم کو تقویت ملتی ہے،اس سے برطانوی معاشرے اور سیاست پر منفی اثرات مرتب ہونگے،برطانیہ کثیر جہتی سماج ہے جو کہ زیادہ تر غیر مذہبی ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق برطانیہ کو عیسائی ملک کہنے پر کیمرون تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معروف مصنف سر ٹیری پریشیٹ اور فلپ پل مین کے علاوہ کئی دوسرے معروف ادیبوں، ماہرینِ تعلیم اور سائنس دانوں نے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کو تحریر کردہ ایک خط میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔یہ خط کیمرون کے اس بیان کے بعد آیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ برطانیہ کو ایک عیسائی ملک کے طور پر زیادہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔دوسری جانب10ڈائوننگ سٹریٹ ایک ترجمان نے کہا کہ برطانیہ عیسائی ملک ہے اور اسے یہ کہتے ہوئے ڈرنا نہیں چاہیے۔ڈیلی ٹیلیگراف کو تحریر کیے جانے والے خط پر کل 55 افراد کے دستخط ہیں جن میں فنکار ٹم منشن، صحافی پولی ٹوائن بی، فلسفی اے سی گریلنگ اور پریزنٹر ڈین سنو جیسی معروف شخصیتیں بھی شامل ہیں۔برطانوی ہیومنسٹ ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر جم الخلیلی اس کے صف اول کے دستخط کنندگان میں شامل ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ ہم وزیر اعظم کے مذہبی عقائد کے ذاتی حق کا احترام کرتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کے طور پر وہ ان کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم ہمیں برطانیہ کو عیسائی ملک کے طور پر بیان کئے جانے پر اعتراض ہے اور اس سے برطانیہ کے معاشرے اور سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ آئین کے محدود نظریئے کے تحت ہمارے یہاں چرچ مستحکم ضرور ہے لیکن برطانیہ عیسائی ملک نہیں ہے۔