• news

عوامی سطح پر اعتراف کے بعد میمورنڈم کو خفیہ رکھنے کا حق ختم ہو چکا، اوباما انتظامیہ ڈرون حملوں کے قانونی جواز کی دستاویز منظر عام پر لائے: امریکی عدالت

واشنگٹن  ( نمائندہ خصوصی) ایک امریکی عدالت نے محکمہ انصاف کو وہ دستاویز منظر عام پر لانیکا حکم دیا ہے جس میں دہشت گردی میں ملوث افراد بشمول امریکی شہریوں کے ماورائے عدالت قتل کا قانونی جواز پیش کیا گیا ہے۔ پیر کو  اپنے فیصلے میں نیویارک کی ایک عدالت نے ماتحت عدالت کے ماضی کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں امریکی حکومت کو مذکورہ دستاویز خفیہ رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ امریکی روزنامے 'نیو یارک ٹائمز' کی جانب سے فیصلے کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل پر 'سیکنڈ یو ایس کورٹ آف اپیلز' نے قرار دیا ہے کہ امریکی حکومت دہشت گردی میں ملوث ملزمان کی ہلاکت کے حق میں مسلسل بیان بازی کے باعث مذکورہ دستاویز کو خفیہ رکھنے کے حق سے محروم ہوچکی ہے۔عدالت کے تین رکنی بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں میں امریکی شہریوں سمیت مشتبہ دہشت گردوں کی ہلاکت کے حق میں امریکی محکمہ انصاف ماضی میں ایک وائٹ پیپر جاری کرچکا ہے جب کہ اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر اور اوباما انتظامیہ کے سابق مشیر برائے انسدادِ دہشت گردی جان برینن بھی اس عمل کے حق میں بیانات دے چکے ہیں۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ امریکی حکومت کو ماضی میں مذکورہ دستاویز خفیہ رکھنے کا  جو بھی اختیار حاصل تھا، وہ اعلی ترین حکام کی بیان بازیوں کے نتیجے میں ختم ہوچکا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مذکورہ دستاویز کو فوجی منصوبوں اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے افشا ہونے اور بین الاقوامی تعلقات کے خراب ہونے کی بنیاد بنا کر عوام کے لیے جاری نہ کرنے کا کوئی منطقی جواز اب دستیاب نہیں۔خیال رہے کہ محکمہ انصاف کی جانب سے مرتب کردہ اس دستاویز میں ڈرون حملوں سمیت مختلف کاروائیوں میں مشتبہ شدت پسندوں کے ماورائے عدالت قتل کا قانونی جواز پیش کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت ماضی میں اس دستاویز کو عوام کے لیے جاری کرنے کی مخالفت کرتی رہی ہے جس کے باعث 'نیویارک ٹائمز' اور دو صحافیوں نے مشترکہ طور پر اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت اس دستاویز تک رسائی حاصل کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں  دستاویز کا وہ حصہ بدستور خفیہ رکھنے کا حکم دیا ہے جن میں اہداف سے متعلق انٹیلی جنس  جمع کرنے کی تفصیل درج ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ مذکورہ دستاویز کب تک عوام کے لیے جاری کردیا جائے گی اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ آیا اوباما انتظامیہ عدالتی فیصلے کیخلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کرے گی یا نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن