مغربی ممالک یوکرائن پر روس سے اختلافات بھلا کر اسلامی شدت پسندی پر توجہ دیں: ٹونی بلیئر
لندن (بی بی سی+ اے ایف پی) برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مغربی ممالک کے رہنماؤں کو یوکرائن کے معاملے پر روس سے اختلافات بھلا کر اسلامی شدت پسندی پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے کہا ہے۔ مغربی ممالک کو چاہئے کہ وہ اسلامی شدت پسندی کیخلاف جنگ کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں سر فہرست رکھیں۔ برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘ میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق لندن میں اپنے خطاب میں کہا مغرب کو درپیش اہم نکتہ یہ ہے ان کے سامنے طرفین کے درمیان جنگ جاری ہے۔ در حقیقت یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ہمارے سٹرٹیجک مفادات بہت ہی گہرے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جنہیں ہمیں تعاون دینا چاہئے اور یہ عجیب بات ہے کہ وہ شاید اکثریت میں ہیں اگر ہم انہیں یکجا اور منظم کرکے انکا تعاون حاصل کرسکیں۔ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے بارے میں اپنے کلیدی خطبے میں کہا اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے رویئے سے خود کو آزاد کریں۔ ہمیں کسی ایک کی طرفداری کرنی ہو گی۔ ہمیں کسی ملک سے کسی خاص وقت میں اپنی سہولتوں کی بنیاد پر تعلقات رکھنے سے روکنا ہوگا۔ ہمیں پورے خطے کے بارے میں مربوط نظریہ رکھنا ہوگا اور اسے مجموعی طور پر لینا ہوگا اور سب سے پہلے ہمیں اسکا عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس میں شامل ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ یا مسلم ممالک کے ساتھ رابط کی اپنی قیمت ہے اور جہاں کمٹمنٹ نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ اس ضمن میں انہوں نے شام میں جاری جنگ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیاد پرست اسلام کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے بلکہ یہ بڑھ رہا ہے۔ یہ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ یہ اقوام کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ یہ گلوبلائزیشن کے عہد میں پرامن بقائے باہمی کے امکان کو کم کر رہا ہے۔ پاکستان، افغانستان، شمالی افریقہ میں پھیلے انتہاپسندانہ نظریات اکیسویں صدی میں عالمی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں اور اس سلسلہ میں ہمیں مشرق، خصوصی طور پر روس اور چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ انہوں نے اسکے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس خطرے کے سامنے ہم حیرت انگیز طور پر اسے تسلیم کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں اور موثر ڈھنگ سے اسکی مزاحمت کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔