کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، دفاعی اداروں کے وقار کا تحفظ ہماری آئینی ذمہ داری ہے : وزیر داخلہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی یا ابہمام میں نہ رہے، دفاعی اداروں کی عزت اور وقار کا تحفظ ہماری آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔ حکومت اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ایک واقعے کو بنیاد بنا کر جج، جیوری اور پراسیکیوشن کا کام کیا جا رہا ہے، پہلے دن واضح کر دیا تھا کہ حکومت کس کے ساتھ ہے۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ملکی سلامتی و دفاعی اداروں کے وقار کا تحفظ صرف قانون نے نہیں بلکہ آئین نے بھی لازم قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا حامد میر کی عیادت کیلئے جانا الگ معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا جب آئی ایس آئی کیخلاف میڈیا ٹرائل شروع ہوا اس وقت بیان دینا چاہتا تھا مگر کچھ دوستوں نے منع کر دیا مگر میڈیا ٹرائل کا سلسلہ نہیں رکا۔ سندھ پولیس کے ذریعے واقعے کی تحقیقات کیلئے وفاق مکمل تعاون کر رہا ہے۔ کسی ثبوت کے بغےر مےڈےا ٹرائل بندکےا جائے اس سے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہےں ،بھارتی چےنل دےکھے جاسکتے ہےں صبر کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ تالی بجانے والوں اور تےلی لگانے والوں سے دور رہنا سب کے لئے بہترہے۔ مےں اس کوشش مےں ہوں کہ معاملات کو ٹھنڈا کےا جائے۔ بطور وزیر داخلہ صلح کرانے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ حالات کی بہتری کے لئے کوشش کر رہا ہوں، کروں گا، ےہ بہتری کی طرف جائےں گے۔ سب کو اےک قدم پےچھے ہٹ کر ٹھنڈی سانس لے کر حالات کنٹرول کرنے چاہئےں۔ آزاد مےڈےا اور باوقار دفاعی ادارے بھی ملکی ضرورت ہےں۔ سپرےم کورٹ کا تےن رکنی کمشن قائم ہوگےا ہے جو اکےس ےوم مےں اپنی رپورٹ پےش کرنے کا پابند ہے حامد مےر پر حملے کے بارے مےں جو بھی شواہد ہوں وہ کمشن کے سامنے پےش کئے جائیں۔ حامد میر نے نے موجودہ حکومت کے دور مےں نہ کوئی شکاےت درج کرائی اور نہ کوئی فون نمبرز دئےے۔ اسلام آباد پولےس کو دھمکی آمےز فون کالز کا کوئی رےکارڈ بھی فراہم نہےں کےا گےا، حملے کے ملزموں کی گرفتاری کے لئے شفاف تحقےقات کرےں گے۔ حملے کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائینگے۔ حملے میں جو بھی ملوث ہے اسے بے نقاب کرنے کیلئے آخری حد تک جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی اداروں کے خلاف کوئی غلط بات برداشت نہیں کی جائیگی۔ الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں فوج اور آئی ایس آئی پر ہونے والی تنقید کے بعد پیمرا کو جو ریفرنس بھیجا گیا اس کے بعد یہ ابہام ختم ہو جانا چاہئے کہ حکومت کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ عدالتی کمشن 21 روز میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گا جس کے بعد اس سے عوام کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کا حامد میر کی عیادت کیلئے جانا الگ معاملہ ہے۔ میں نے کئی بار آئی ایس آئی چیف پر سیاسی مداخلت کا الزام لگایا مگر کبھی کسی پر قتل کا الزام نہیں لگایا۔ چار گھنٹے تک مسلسل ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر چلانے سے افسوس ہوا، اب الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ حامد میر پر حملے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے پر سب متفق ہیں۔ عدالتی کمشن واقعے کے تمام پہلوﺅں سے جائزہ لے کر تین ہفتوں میں رپورٹ مرتب کرنے کا پابند ہے اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو پولیس یا کمشن کو فراہم کئے جائیں۔ دفاعی اداروں کے میڈیا ٹرائل کا فائدہ دشمنوں کو ہو گا، بہت سی قوتیں موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ انہوں نے کہا حامد میر حملے پر میڈیا ٹرائل ناقابل قبول ہے اس کی وجہ سے پاکستان دشمن عناصر کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ آئی ایس پی آر نے حامد میر پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی یقین دہانی آزاد کمشن کا مطالبہ بھی کیا ہے جس پر حکومت نے اعلی عدلیہ کے تین معزز ججز پر مشتمل عدالتی کمشن تشکیل دے دیا۔ حملے کی تحقیقات کرانا ہماری ذمہ داری ہے اور قومی سلامتی کے اداروں اور ان کی عزت وقار کا تحفظ بھی ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ حامد میر ان کے اہلخانہ اور ان کے ادارے سے ہمیں ہمدردی ہے۔ ہم ماضی میں ان پر حملے کی تحقیقات اور حالیہ حملے کی بھی تحقیقات کرا کے ملزموں کو کٹہرے میں لائیں گے ۔ وزیر داخلہ نے عامر میر کے اسلام آباد پولیس پر لگائے گئے الزامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب جوڈیشل کمشن بن گیا تھا تو انہیں اپنا بیان کمشن کے سامنے پیش کرنا چاہئے تھا۔ اس کا ایک عکس بیان سے سامنے آیا۔ اگر یہ بیان اس طریقے سے سامنے آنے کی بجائے پولیس یا عدالتی کمشن کے سامنے آتا جہاں ثبوت اور شواہد بھی ہیں پیش کئے جائیں جس پر وضاحت کرنے پر اس لئے مجبور ہوا کہ اس بیان میں اسلام آباد پولیس کا ذکر آیا اس کو بھی کارروائی نہ کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اس معاملے پر رات کو ہی فوری تحقیقات کی ہدایت دے دی ہے۔ میں نے جو ہدایت دی اس کی روشنی میں حامد میر کی بیگم اور بھائی سے جب پولیس نے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ جن دو واقعات کا حامد میر کے تحریری بیان میں حوالہ دیا گیا ہے ان میں ایک 2012 ءمیں ہوا۔ بچوں کے حوالے سے واقعہ پانچ سال پہلے ہوا ہم نے فوری طور پر دونوں واقعات کا پس منظر نکلوایا اور اس وقت کے افسران بن یامین اور طاہر عالم سے تحقیقات کی۔ ریکارڈ کے مطابق پانچ سال پہلے بچوں کے واقعہ کی رپورٹ کی گئی نہ ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی متعلقہ افسروں نے تصدیق کی۔ 2012ءکے واقعہ میں تحقیقات ہوئی مگر حامد میر کی جانب سے ٹیلی فون نمبر نہیں دیا گیا۔ جب دوبارہ ان کے بھائی اور بیگم سے رابطہ کیا گیا تو نمبر دیئے گئے۔ اس وقت پولیس نے 2012 کے واقعہ کی تحقیقات کی تو ڈرائیور کو شامل تفتیش کیا گیا مگر پھر جب تحریک طالبان نے ذمہ داری قبول کی تو معاملہ ختم کر دیا گیا ہم مزید تحقیقات کو تیار ہیں مگر اس کا الزام موجودہ پولیس یا حکومت پر نہ لگایا جائے۔ ہم واقعہ کی آخری حد تک جائیں گے۔ شفاف تحقیقات کرائی جائے گی۔ بدقسمتی سے میڈیا ٹرائل ابھی تک جاری ہے اسے بند کیا جائے۔ میں دفاعی اداروں کا ترجمان نہیں مگر واقعہ پر اداروں نے خود سخت مذمت کر کے آزاد کمشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ پولیس پر الزام لگا دیا گیا جس کے شواہد موجود نہیں، آزاد میڈیا اس ملک کی ضرورت ہے اور باعزت باوقار دفاعی ادارے بھی ملک کی ضرورت ہے ہم سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہئے۔ یہ حق نہیں کہ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر آپ جج جیوری بن جائیں۔ ہر طرف سے صبر کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ایجنسیاں اور فوج کی سپورٹ نہ ہوتی ہم یہاں نہ پہنچتے۔