• news

پاک فوج اور آئی ایس آئی نہ جانے کن مصلحتوں کا شکار ہیں؟

ایک شخص گدھے پہ سوار کہیں جا رہا تھا ساتھ ہی کمہار بھی پیدل چل رہا تھا یکدم گدھے کو ٹھوکر لگی تو وہ شخص نیچے گر گیا اور کمہار کو بُرا بھلا کہنے اور غصہ کرنے لگا۔ شاید یہیں سے اس مشہور کہاوت نے بھی جنم لیا ہوگا ’’ڈِگے کھوتے تو ں غصّہ کمیار تے‘‘اور یہی حالا ت کم و بیشتر ملکی سیاست اور صحافت میں گذشتہ روز پیش آئے مشہور اینکر حامد میر پر حملہ کے کچھ ہی دیر بعد کالعدم تحریک طالبان پنجاب نے اس وقوعہ کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ وہ سب وجوہات بھی میڈیا کے سامنے بیان کیں جس کی وجہ سے ان کے حامد میر کے ساتھ اختلافات تھے مگر ہوا یہ کہ حامد میر کے بھائی اور ان کے ادارے نجی میڈیا گروپ نے ایک بھرپور کمپین ملکی سلامتی کے ادارے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف شروع کر دی  اسی طرح تحریکِ طالبان پاکستان والے کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ڈالر لے کر مروا رہی ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ آئی ایس آئی بھارت اور کشمیر میں دہشت گردی کروا رہی ہے۔ حامد کرزئی ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات کی ذمہ دار آئی ایس آئی ہے۔ روس کہتا ہے کہ روسی فیڈریشن کو توڑنے اور سنٹرل ایشیا میںنئی اسلامی مملکتوں کا قیام آئی ایس آئی کا کام ہے۔ اسرائیلی حکومت اور موساد آئی ایس آئی کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔امریکہ کہتا ہے کہ آئی ایس آئی امریکی اور یورپین مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے یہ سبھی ممالک اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے خلاف کیوں ہیں؟اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں گذشتہ 13سال کے دوران پاکستان کے اندر ہونے والی اندرونی سیاسی تبدیلیوں اور دہشت گردی کی مسلسل لہروں کو نظرانداز نہیں کرنا ہوگا۔ قومی اور بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کے مطابق کے جی بی اور روس کی افغانستان میں شکست کے بعد یورپین ممالک اور امریکہ کو محسوس ہوا کہ انہوں نے کے جی بی اور روس سے تو آئی ایس آئی اور مسلمانوں کو استعمال کرکے جان چھڑا لی ہے لیکن آئی ایس آئی سے ہماری جان کون چھڑائے گا؟
ایک دفعہ امریکی کانگریس میں اور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین بینجمن گل مین نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا تھا اور برملا کہا تھاکہ اب ہم دنیا کے کسی بھی ملک اور فوج کو درخوداعتنا نہیں سمجھتے مگر دنیا میں پاورکوریڈور اب بھی دو ہیں ایک امریکہ اور دوسری آئی ایس آئی۔یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتیں اس ادارے کے پیچھے پچھلے 20سال سے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہیں خاص طور پر 9/11کے بعد خطے میں بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنا دفاعی حصار توڑ کر اپنی عسکری قوت کو افغانستان کی سرحدوں پر اور طالبان شورش زدہ علاقوں پر لگانا پڑا یہ صورتِ حال کچھ اس طرح سے اس سفید پوش شخص کی طرح بن گئی جس کے پاس جسم ڈھانپنے کو ایک چادر تھی جس سے وہ سرڈھانپے تو پائوں ننگے اور پائوں ڈھانپے تو سر ننگا۔ جیسے ہی پاکستان نے بھارت کے ساتھ ملحقہ سرحدوں سے افواج کو ہٹا کر افغانستان کے بارڈر پر لگایا اسی دن سے نہ صرف ہمارا ازلی دشمن بھارت عسکری طور سے مضبوط ہوا بلکہ اس کے دفاعی اخراجات 50فیصد سے بھی کم ہو گئے۔ جس کی وجہ سے بھارت کو اپنے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دینے کے لیے وقت اور وسائل دستیاب ہونے لگے اور ایک ذی ہوش شخص دیکھ سکتا ہے کہ پچھلے 13سال میں بھارت کی اکانومی نے جس طرح شوٹ کیا آج انفارمیشن ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر ہارڈ ویئر سمیت دفاعی شعبے میں بھی بھارت نے بے مثال  ترقی کی ہے۔ وہ بھارت جو 9/11سے پہلے کچھوے کی چال چلنے پر مجبور تھا اب چھلانگیں بھرتا نظر آتا ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ عالمی طاقتوں نے پاک فوج کو اور آئی ایس آئی کو ایک ایسے مشن کے تعاقب میں لگا دیا جس کا حال ٹرک کی بتی جیسا ہے۔
آج پاکستان کے اندر را، موساد، سی آئی اے، ایم آئی سِکس کے جال بچھے ہوئے ہیں اور ان کے نیٹ ورک کو توڑنا آسان اس لیے نہیں کہ پاکستان میں ہزاروں این جی اوز اور ان کے لاکھوں ورکرز کسی نہ کسی طریقے سے اوپر بیان کیے گئے اداروں سے نہ صرف فنڈنگ حاصل کرتے ہیں بلکہ تکنیکی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں کبھی کہا کرتے تھے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ لیکن آج حال یہ ہے کہ آج ہر گھر میں آپ کو ایک شکیل آفریدی مل جائے گا۔ زندگی کے ہر طبقہ فکر اور شعبے کے لوگ گرین کارڈ اور روشن مستقبل کے سہانے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے وطن کی عزت اور حرمت بیچ کر اپنی قبریں تاریک کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے 13سال کے دوران 70ہزار سویلین اور 10ہزار عسکری جوانوں کی شہادت براہِ راست دشمن کے ہاتھوں سے نہیں ہوئی۔ جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ ایئر بیس اور آئی ایس آئی کے لاہور دفتر پر حملے کے لیے جن قوتوں کو استعمال کیا گیا وہ یقینا اپنے ہی لوگ تھے جبکہ ان حالات میں میکڈونلڈ، کے ایف سی، پیزاہٹ، نیسلے سمیت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو گزند تک نہ پہنچی۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار حماد رضا، صحافی موسیٰ خاں، ولی خاں بابر، جسٹس جاوید اقبال کے و الدین اور بلوچ رہنما حبیب جالب ،رضا رومی پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے الزامات آئی ایس آئی پر لگائے گئے جو کہ بعدازاں تحقیقات کے دوران ثابت نہ ہو سکے ۔ ہوا یہ کہ رجسٹرار کو ڈاکوئوں نے ،موسیٰ خاں کو طالبان نے، جسٹس جاوید اقبال کے والدین کو خود ان کے سگے بیٹے، حبیب جالب کو اس کی بیوی نے قتل کروایا۔ رضا رومی پر حملے کے ملزمان جو کہ گرفتار ہو چکے ہیں کا تعلق مذہبی دہشت گرد تنظیم سے ہے۔

ای پیپر-دی نیشن