نجی ائرلائن اور سٹیل ملز کامیاب لیکن ریاستی اداروں کیلئے قابل افراد نہ مل سکے
لاہور (اشرف ممتاز/ دی نیشن رپورٹ) حکومت نے سالانہ 500 ارب روپے خسارہ کرنیوالے 70 سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے لاکھوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کے خطرے کی بھی پروا نہیں کی۔ جن اداروں کو پرائیویٹائز کرنا ہے ان میں پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ او جی ڈی سی اور پاکستان پٹرولیم بھی شامل ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جمعہ کے روز سٹیل ملز کو پرائیویٹائز کرنے سے قبل اس کے ری سٹرکچر کیلئے ساڑھے 18 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دیدی۔ سٹیل ملز اور پی آئی اے کی جس انداز میں نجکاری کی جا رہی ہے وہ نہ صرف مسلم لیگ (ن) کے منشور کیخلاف ہے بلکہ اس سے اس بات کی گواہی بھی ملتی ہے کہ کچھ شخصیات وہ کام کر سکتی ہیں جو پوری ریاست ملکر نہیں کر سکتی۔ 2000ء میں جب شریف خاندان سعودی عرب منتقل ہوا تو اس نے جدہ میں ایک سٹیل ملز قائم کی۔ اس حوالے سے وسیع تجربہ رکھنے کی وجہ سے یہ سٹیل ملز شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ یہ یونٹ نوازشریف کے بڑے بیٹے حسین نواز چلا رہے ہیں۔ ضیاء دور میں قائم پاکستان سٹیل ملز کے خسارے کی بڑی وجہ اس میں حکومتوں کی جانب سے تقرر کئے گئے بدعنوان افراد ہیں۔ قابل اور ایماندار عہدیداروں کی تعیناتی سے سٹیل ملز کو نفع بخش ادارہ بنایا جا سکتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سمیت کسی بھی حکومت کو اب تک حسین نواز جیسی کوئی ایسی قابل شخصیت نہ مل سکی جو مشکل حالات میں بھی سٹیل ملز کو خسارے سے نکال سکے۔ شاید اس کیلئے کوئی مہیا نہیں یا اس کیلئے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ پی آئی اے کی نجکاری کی دلیل بھی حکومت یہ دیتی ہے کہ اس کو خسارے سے بچانے کیلئے خرچ کئے جانیوالے اربوں روپے بچانے کا واحد حل اسکی نجکاری ہے۔ واضح رہے کہ نوازشریف کی کابینہ میں وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی خود اپنی ائرلائن کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی ائرلائن نفع میں چلا سکتے ہیں تو انکے جیسا کوئی دوسرا ایسا شخص کیوں موجود نہیں جو پی آئی اے کو بحران سے نکال کر نفع بخش ائرلائن بنا سکے۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں ہے کہ ریاستی اداروں کے قابل سربراہوں کی تقرری کیلئے ایک ماہرین پر مشتمل ایک آزاد بورڈ تشکیل دیا جائیگا جو صرف میرٹ کی بنا پر ان اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کریگا۔