وزیر شذیر امیر جماعت اسلامی کا مارشل لا
شاید یہ بھی اسلامی انقلاب کی طرف اشارہ ہے کہ آج ایک صوبائی وزیر شذیر سراج الحق امیر جماعت اسلامی ہے۔ یہ لوگ امیر جماعت اسلامی کو امیرالمومنین سمجھتے ہیں۔ پہلے جماعت کے لئے امیر کے لئے امیر ہونا شرط نہ تھی۔ اب بھی نہیں ہے۔ مگر اب کئی لوگ امیر جماعت نہیں ہیں مگر امیر کبیر ہیں۔ ہم حیران پریشان ہوتے تھے کہ جب سید مودودی کے بعد میاں طفیل محمد امیر جماعت بنے تھے۔ ان کے داماد اعجاز چودھری آج کل تحریک انصاف لاہور کے صدر ہیں۔ وقتی طور پر بننے والی سیاسی انقلابی جماعتوں کی متحدہ حکومتی تنظیم ایم ایم اے کی حکومت صوبہ سرحد (خیبر پی کے) میں تھی اور تب بھی سراج الحق سینئر وزیر وغیرہ تھے۔ اسلامی انقلاب اٹھائے اٹھائے سراج صاحب پھرتے رہے مگر مولانا فضل الرحمن کہیں ٹک کے بیٹھے نہ تھے۔ قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ سے بات ہوتی تھی۔ وہ تنگ تھے مگر ایم ایم اے سے نکلنے کے لئے تیار نہ تھے۔ سراج صاحب بڑی رکاوٹ تھے۔ پھر وہ وزیر کیسے رہتے۔
جماعت کے لوگ بہترین ووٹرز ہیں۔ وہ امیر جماعت ڈھونڈ کے لاتے ہیں۔ منور حسین نے جماعت کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ جماعت کے اراکین نے عدم اعتماد کیا۔ سراج صاحب قاضی حسین احمد کا متبادل ثابت ہوں گے۔ کوالی فیکیشن صرف یہ ہے کہ دونوں خیبر پختون خواہ کے ہیں۔ قاضی صاحب اسلامی اور عوامی میں فرق نہ کرتے تھے۔ میرے خیال میں لیاقت بلوچ امیر جماعت کے لئے بہترین انتخاب تھے۔ وہ جماعت کے نئے نئے زمانے کو پرانے زمانے سے مربوط کرتے۔ میں جماعت میں کبھی نہیں رہا مگر جماعت کے کئی لوگ میرے دوست ہیں۔ ان کے لئے میرے دل میں نرم گوشہ ہے۔ سید مودودی کو میں عالم اسلام کے جید لوگوں میں سمجھتا ہوں۔ میں گورنمنٹ کالج کے نیو ہوسٹل سے پیدل اچھرہ میں سید مودودی کی مجلس عصر میں جاتا تھا۔ آج تک ایسی صحبت پھر کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ مجید نظامی کی محفل میں دل جاگ اٹھتا ہے مگر ان کی فاتخانہ موجودگی میں احترام اور اہتمام چاروں طرف چھاپا رہتا ہے۔ سید مودودی کی عالمانہ شخصیت کے اعتراف اور اختلافات کے باوجود ایک بے تکلفانہ اپنائیت تھی۔ ان کی مسکراہٹ کی بے آواز آہٹ چاروں طرف سے سنائی دیتی تھی۔ وہ مجلس عصر میں عالم دین کی حیثیت کو بھلا بیٹھتے تھے۔ پھر میری دوستی قاضی حسین احمد سے ہوئی۔ ان کی وساطت سے سمیعہ راحیل قاضی سے تعارف ہوا۔ جینوئن مکمل اور کمپلیکس فری عورت اور ان کی دوست فلاحی جذبوں سے سجی ہوئی ڈاکٹر پروفیسر امت الازریں سے مل کر میں حیران ہیں۔ اس کے علاوہ لیاقت بلوچ نے ہمیشہ مجھے دوست رکھا۔ دھیمے پن کا بانکپن ان کی شائستگی انداز بڑھا دیتا ہے۔ فرید پراچہ امیر العظیم جاوید ہاشمی حافظ ادریس انور نیازی کے ساتھ تعلق پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے ہے۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ والوں کا مخالف تھا بلکہ وہ میرے مخالف تھے۔ یہ بھی مخالف تھے مگر دشمنی میں ایک دوستی ہوتی ہے اور یہ دونوں دشمنوں کو پتہ نہیں ہوتا۔ دوستی میں بھی دشمنی ہوتی ہے۔ یہ دونوں کو پتہ ہوتا ہے۔ میں نے زندگی میں نے ان دونوں کو آزمایا۔ سرخرو نہیں ہوا۔ سرشار ضرور ہوا۔ لیاقت بلوچ دشمن تو اسی طرح کا ہے جیسے جماعت اسلامی کے ہوتے ہیں۔ دوست دوستی میں جماعتیہ نہیں ہے۔ جماعت والوں نے اسے امیر جماعت نہ بنا کے اپنا نقصان کیا ہے۔ جاوید ہاشمی جماعت میں ہوتا تو شاید امیر جماعت ہوتا اور امیر بھی ہوتا۔ امیر کبیر۔
مفتی محمود جمعیت العلماء اسلام (ہند) کے سربراہ تھے اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بنے مگر کچھ بھی نہ کر سکے۔ پھر ان کے لئے فضل الرحمن نے بھی صوبہ سرحد کی حکمرانی پائی۔ دونوں باپ بیٹا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ ان کی سیاست دیکھیں۔ یہ سیاست بھارت میں نہ چل سکتی تھی۔ وہ بھارت کے حق میں ہیں مگر مذہبی سیاست پاکستان میں کرتے ہیں۔
جمعیت العلمائے پاکستان کے سربراہ مولانا عبدالستار خان نیازی بھی آخری عمر میں وزیر بن گئے۔ میں مجاہد ملت کا عاشق ہوں۔ خود میں نے سنا کہ مولانا نے کہا میں لیلائے وزارت کو ٹھوکر مارتا ہوں۔ پھر انہیں مجنوں کس نے بنایا۔ مولانا کے کرپٹ رشتہ داروں اور ناکام مذہبی سیاستدانوں نے ؟ اسلامی انقلاب کی آرزو رکھنے والا حج کی درخواستوں پر دستخط کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ ان کے حق میں لکھنے والے بدقسمت محمد اجمل نیازی نے ان کے خلاف لکھا۔ مجھے ان کے جنازے میں شریک نہ ہونے دیا گیا۔ میں ان کی ویران اجڑی پجڑی قبر پر روتا رہا۔ فاتحہ پڑھا۔ یہ تو فاتح لوگوں کو نذرانہ ہوتا ہے مگر میں مفتوح جذبوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ کسی جماعت کا سربراہ وزیراعظم بنتا مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان بھی وزیراعظم ہونے کی حسرت لئے ہوئے وزیر مذہبی امور بن جائے گا اور سراج الحق اس کا وزیر مملکت ہو گا۔ مبارک ہو۔
نوائے وقت میں جو بیان سراج الحق کا شائع ہوا ہے اس کے مطابق ’’نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے فوج کو شامل کیا جائے۔ بحرانوں کی وجہ سے مارشل لاء کا خطرہ ہے‘‘ بات تو سراج صاحب نے ٹھیک کی ہے مگر یہ بات انہوں نے وزیر جماعت کے طور پر کی ہے یا امیر جماعت کے طور پر کی ہے۔ یہ عمران کی پالیسی ہے کہ طالبان بھی خفا نہ ہوں، فوج بھی ناراض نہ ہو اور نواز شریف بھی ناخوش نہ ہو۔ سراج صاحب کو مارشل لا کا خطرہ ہے تو اس کے بعد عمران کے کیا ہونے کا ’’خطرہ‘‘ ہے۔ جنرل مشرف نے غلطیاں کیں۔ اس نے عمران کو وزیراعظم بنا دیا ہوتا تو…؟ اس کے بعد میرا تبصرہ گم ہو گیا ہے۔
ایک اور مذہبی سیاستدان اور نواز شریف کے مستقل حامی سنیٹر ساجد میر ہیں۔ وہ کبھی ن لیگ کی حمایت کے بغیر سنیٹر نہیں بن سکتے تھے۔ وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی ہے۔ نجانے یہ بات نواز شریف کو پسند آتی ہے یا نہیں آتی۔ ’’پاکستان میں مارشل لاء کا دروازہ بند بھی ہو جائے تو کھڑکی ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔‘‘ آج کل اس کھڑکی کے پاس کون کھڑا ہے؟ ساجد میر کو تو پتہ ہو گا انہیں یقین ہے کہ نواز شریف ضرور پوچھیں گے۔ مارشل لا نے صرف دروازہ کھولا ہے بلکہ استقبال بھی کیا ہے۔ سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مارشل لا کو یہ دروازہ ہمیشہ کھلا بلکہ کھلم کھلا ملتا ہے۔
ایک اور جماعت عوامی مسلم لیگ ہے۔ برادرم شیخ رشید اس کے سربراہ ہیں۔ اس جماعت میں سب کچھ وہ خود بلکہ خود بخود ہیں۔ عوامی مسلم لیگ میں ہر طرف اکیلے ہی شیخ صاحب ہیں۔ مگر انہیں عمران کی طرف سے پارٹی لیڈر کا پروٹوکول ملتا ہے۔ اس میں راز کیا ہے۔ یہ راز دونوں کو پتہ ہے مگر وہ ایک دوسرے کو نہیں بتاتے۔ البتہ جو باتیں شیخ صاحب ٹی وی چینلز پر کرتے ہیں کوئی دوسرا سیاستدان نہیں کرتا۔ شیخ رشید نے کہا کہ جسے سیاستدان بِلا کہہ رہے ہیں اسے باگڑ بِلا ’’صدر‘‘ زرداری نے بنایا ہے۔ زرداری کہتے ہیں بلا جانے نہ پائے۔ خواہش ان کی یہ ہے کہ بلہ آنے نہ پائے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ بے شک دروازے بند کر لو۔ بلہ دیواریں پھلانگ کے بھی آ جائے گا۔ اسی لئے تو ہم نے کئی بار لکھا ہے کہ بلے کو جانے دو۔