’نوازشریف کرنے والے کام کریں !
کیا بات اتنی ہی سادہ ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پارلیمنٹ ہائوس کی جانب بڑھنے کی کوشش کرکے قانون کی خلاف ورزی کی اور اسلام آباد پولیس نے ان قانون شکنوں کو روایتی انداز سے قانون شکنی سے روک دیا کسی بھی واقع کے بارے میں قائم ہونے والی رائے کی تشکیل میں وقت کا بڑا دخل ہوتا ہے کہ یہ واقع کس وقت رونما ہوا چنانچہ اسلام آباد کے واقع پر بھی اس حوالے سے آرا تشکیل پاتی ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ حامد میر پر حملہ اور آئی ایس آئی پر براہ راست الزام نے ملک کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور بیرون ملک آئی ایس آئی کے خلاف ہیجانی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے اور حامد میر کی جانب سے یہ کہا جانا کہ وہ کیونکہ لاپتہ افراد کے حق میں سب سے زیادہ آواز بلند کرتا رہا ہے اور لاپتہ افراد کے ایجنسیوں کی تحویل میں ہونے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لہٰذا اسے نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے اس ذہنی فضا میں لاپتہ افراد کے اسلام آباد میں مظاہرے کو آئی ایس آئی پر مزید دبائو ڈالنے اور ایک میڈیاگروپ کیخلاف عوامی ردعمل کا رخ بدلنے کیلئے ایک سوچے سمجھے حربے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے اس مظاہرہ پر پولیس ایکشن پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور دو ایس پی معطل بھی ہو گئے ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انداز اختیار کیوں کیا گیا اگر مظاہرین کو پارلیمنٹ ہائوس تک جانے سے روکنا ہی مقصد تھا تو دھرنے کے آگے ناقابل عبور رکاوٹیں کھڑی کرکے یہ حاصل کیا جا سکتا تھا خواتین کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھیسٹنا لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ ایک سو سے بھی کم تعداد میں مظاہرین کو روکنے کیلئے کوئی جواز نہیں رکھتی اس سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یا تو حکومت خود بے تدبیری کا شکار ہوئی یا اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی سازش کی گئی ویسے بے تدبیری کی پہلی اینٹ خود وزیراعظم نواز شریف نے رکھی جب وہ بغیر سوچے سمجھے حامد میر کی عیادت کیلئے کراچی پہنچ گئے اور اگر چلے ہی گئے تھے تو وہاں یہ بیان بے شک ضرور دیتے کہ ’’حامد میر پر حملے میں جو ملوث ہوا اسے کیفر کردار تک پہنچائیں گے‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کر دیتے کہ کسی باقاعدہ تفتیش سے پہلے اور ثبوت کے بغیر آئی ایس آئی کو ملوث کرنا درست نہیں ہے تو ایک توازن قائم ہو جاتا عین ان لمحات میں جب آئی ایس آئی اور اسکے سربراہ کو براہ راست ملوث کیا جا رہا تھا وزیراعظم کا یہ اعلان کہ ’’حملے میں جو ملوث ہوا کیفر کردار تک پہنچائیں گے‘‘ بہت سی غلط فہمیوں اور غلط تاثر کی بنیاد بنا ہے جبکہ غلط فہمی اور غلط تاثر کی خلیج کو وسیع کرنے کا باعث بننے والا ایک قدم وہ پہلے ہی سابق صدر زرداری سے علیحدگی میں ملاقات کی صورت میں اٹھا چکے تھے جمہوریت کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دینگے اور غیر آئینی اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کرینگے۔ جیسے بیانات نے ملک میں ایک چونکا دینے والی کیفیت پیدا کی کیا جمہوریت پھر شب خون کی زد میں ہے۔ پھر جنگ میں شاہین صہبائی کا یہ تبصرہ کہ نواز زرداری نے ’’پرعزم‘‘ افراد کو اپنی طاقت دکھا دی‘‘ جب کہ حامد میر نے اس ملاقات کا یہ چہرہ دکھایا کہ ’’نواز شریف اور زرداری ان لوگوں کے آگے نہ جھک کر تاریخ رقم کرنے کیلئے پرعزم ہیں جو مشرف کو پاکستان سے فرار کرانا چاہتے ہیں‘‘ اس طرح کے تبصروں اور تجزیوں سے حکومت اور فوج کے مابین زمینی فاصلوں کے تاثر نے مزید گہرائی حاصل کی لیکن حکومتی حلقوں کی جانب سے اس تاثر کی نفی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے عمومی طور پر یہ سمجھا گیا کہ یہ ملاقات مقتدر حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام تھا لمحہ موجود میں جس کی افادیت اور ضرورت سمجھ میں نہیں آ رہی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جمہوریت سے وابستگی کی جو پالیسی اختیار کی تھی جنرل راحیل شریف اس سے انحراف کرتے نظر نہیں آ رہے تھے ملک میں تعمیروترقی کے جن منصوبوں کی تکمل ان کا مطمع نظر ہے فوج کی عدم مداخلت کا رویہ ان کیلئے سازگار صورتحال کی نوید ہے جن کی تکمیل نواز شریف کے سیاسی قد میں اتنا اضافہ کر سکتی ہے کہ کوئی ادارہ انکے آگے سر اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکے گا وہ اگر زرداری یا دیگر سیاست دانوں سے ملکرجمہوریت کی حفاظت کے عزائم کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر صرف کریں تو پھر انہیں کوئی خطرہ ہو گا نہ فوج یا عدلیہ ان کیلئے باعث تشویش ہونگے یاد رکھنا چاہئے برطانیہ میں ڈھائی سو سال کی جمہوریت اور حکمرانوں کی جانب سے مستحکم جمہوری رویوں کے بعد فوج ایک باقاعدہ ماتحت ادارہ بنی ہے ترکی میں فوج کو سیاست سے الگ کرنے کیلئے پیس اینڈ جسٹس پارٹی نے بہترین گورننس کو ذریعہ بنایا ہے پاکستان میں فوج خواہ کسی بھی وجہ سے اگر سیاست سے الگ ہو گئی ہے تو اسے سرخ رومال دکھانا کسی صورت دانش مندی نہیں ہے۔ نواز شریف کیلئے مخلصانہ مشورہ ہے وہ کرنے والے کام کریں۔