• news

قومی اداروں کی نجکاری ایک سامراجی ایجنڈا

میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دس ماہ مکمل کر لیے ہیں۔ حکومت کو ابتداء میں جو چیلنج درپیش تھے ان میں قومی اداروں کی بحالی بھی تھی جو سابقہ حکومت کے دور میں مسلسل زوال پذیر تھے۔ ان قومی اداروں میں پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے سر فہرست ہیں۔ میاں نواز شریف کے صنعتی پس منظر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ وہ ان اداروں کو بحال کرنے اور منافع بخش بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان دس ماہ میں دونوں اداروں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ پاکستان اسٹیل کے بارے میں جو رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق حکومت کے دس ماہ میں پیدا وار 25 فیصد سے کم ہو کر 1.5 فیصد رہ گئی ہے۔ ملازمین چار ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے حکومت سے 24 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج مانگا تھا تاکہ پیداوار کو 25 فیصد سے بڑھا کر 80 فیصد تک پہنچا دیا جائے‘ لیکن حکومت نے یہ وقت گذار دیا۔ یہی حال پی آئی اے کا بھی ہے۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی پی آئی اے کے 26فیصد حصص کی اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے نجکاری کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ کبھی یہی ادارہ پاکستان کی پہچان تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف حج آپریشن میں گذشتہ تین برسوں میں پی آئی اے کو ایک ارب کا نقصان ہوا ہے۔ حج آپریشن پی آئی اے کی آمدنی کا بہت اہم اور بڑا ذریعہ ہے۔ اس ادارے کے بارے میں افسران اور مزدور تنظیموں کے نمائندے اور ماہرین اپنی تجاویز پیش کر چکے ہیں کہ صرف بدعنوانی کے خاتمے اور درست فیصلوں کے ذریعے قومی ادارے کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں بنیادی نعرہ لگایا تھا کہ وہ سابق بدعنوان حکومت کا احتساب کریں گے۔ سابق حکومت کی بدعنوانی کی وجہ سے دو ایسے ادارے شدید بحران میں مبتلا ہوگئے جو منافع بخش اور قومی سرمایہ تھے۔ یعنی پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل۔ اس ادارے پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے دونوں منافع بخش ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔
سابق حکومت کے دور میں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت سے قوم کو یہ توقع تھی کہ وہ ان اداروں کو بحال کریں گے اور بدعنوان عناصر کا احتساب کرینگے لیکن میاں نواز شریف نے اپنے انتخابی منشور کو نظر انداز کردیا اور عالمی طاقتوں کی جانب سے دیئے گئے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا جس کے تحت قومی اداروں کی نجکاری یعنی پاکستان کے ذرائع معیشت پر عالمی سود خوروں اور انکے ایجنٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کنٹرول ہو جائے۔ جن جن ممالک میں اس تجربے پر عمل ہوا ہے وہاں غربت‘ بے روزگاری اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب پی آئی اے کو ایک اچھی انتظامیہ فراہم نہیں کرسکتی تو اسے ملک پر حکومت کرنے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے۔ نجکاری ایک سامراجی ایجنڈا ہے۔ جسے نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دیا جاتا ہے۔ نجکاری دراصل سابقہ غلامی کی نئی شکل ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت نجکاری کے ذریعے اقتصادی غلامی کی زنجیروں کو مضبوط کر رہی ہے اور اس کا آغاز پی آئی اے کے 26 فیصد حصص کی فروخت سے ہوگیا ہے۔ اس عمل میں میاں نواز شریف کے مدد گار ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سابق سربراہ زبیر عمر ہیں جن کو نجکاری کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ قومی ذرائع معیشت پر عالمی اداروں کے تسلط اور قبضے کو مستحکم بنا سکیں۔ اس تناظر میں نجکاری کے خلاف مہم قومی آزادی کی تحریک ہے۔ اس کا تعلق صرف اداروں کے نقصان اور منافع بخش ہونے سے نہیں ہے۔ نہ ہی یہ مسئلہ ڈاؤن سائزنگ یا رائٹ سائزنگ اور ملازموں کی تعداد سے ہے۔ پی آئی اے جیسے اداروں کو بدعنوان انتظامیہ کے ذریعے خسارے میں اس لیے مبتلا کیا گیا ہے تاکہ نجکاری کے خلاف مزدوروں‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کی مزاحمت کو کمزور کیا جاسکے۔

ای پیپر-دی نیشن