• news

عابد شیرعلی، رانا ثناء اللہ۔۔۔ ذرا آئینہ دیکھئے!

فیصل آباد شہر سے باہر بسنے والے اکثر یار لوگ مختلف اوقات میں ملاقاتوں اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے سیاسی گفت و شنید کے دوران ہمیشہ ہی فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے دو وزراء صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خاں ایڈووکیٹ اور وزیرمملکت پانی و بجلی عابد شیرعلی کے حوالے سے سیاسی موضوعات کو گفتگو کا محور بناتے ہوئے طرح طرح کے سوالات کی بوچھاڑ کر دیا کرتے ہیں۔ عابد شیرعلی اور رانا ثناء اللہ خاں گروپس کے درمیان چپقلش اور کھینچاتانی کوئی نئی کہانی نہیں ہے اس پر انہی کالموں میں متعدد مرتبہ لکھا جا چکا ہے تاہم عابد شیرعلی بجلی چوروں کیخلاف آواز بلند کرنے کے باعث خاصی شہرت رکھتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ وزیر مملکت کا قلمدان محض نمائشی اور کسی بھی ارکان اسمبلی میں سے کسی کو خوش کرنے کیلئے عطا کیا جاتا ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں صوبائی وزیر قانون ہونے کے علاوہ صوبائی وزیر بلدیات ہوتے ہوئے بھی حکومت پنجاب کے ہر ایشو پر ترجمان کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ہر سیاسی ایشو پر حکمران جماعت کی طرف سے بانگ دہل لب کشائی کرتے ہیں اس لئے ان کو بھی پنجاب سے باہر کے دیگر تینوں صوبوں میں بھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں اور عابد شیرعلی دونوں کا تعلق ایک ہی حلقہ انتخاب سے ہے۔ عابد شیرعلی این اے 84 سے رکن قومی اسمبلی ہیں جبکہ این اے 84 کے ذیلی حلقہ پی پی70 سے رانا ثناء اللہ خاں رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ پی پی 70 کے حوالے سے بات کریں تو رانا ثناء اللہ خاں اس حلقے میں ترقیاتی منصوبوں کا جال گذشتہ چھ سال سے صوبائی وزیر ہونے کے ناطے بچھاتے چلے جا رہے ہیں۔ ہاں البتہ وزیرقانون ہونے کے ناطے انکی کارکردگی کوئی زیادہ اچھی نہیں۔ اکثر قارئین کی طرف سے ایسی ای میلز اور ٹیلی فون کالز موصول ہوتی ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاید میں رانا ثناء اللہ خاں کا زیادہ حمایتی نہیں اور انکے سیاسی اور بطور وزیر کردار کا مخالف ہوں لیکن ایک بات آج بھی میرے ذہن میں نشین ہے جو مدیراعلیٰ نوائے وقت جناب مجید نظامی نے مجھے بتائی تھی کہ کوئی بھی صحافی کسی سے پرسنل نہیں ہوا کرتا اور صرف ذمہ داری سے اپنا فرض ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ یہی معاملہ صوبے میں لاقانونیت کے حوالے سے رانا ثناء اللہ خاں کے ساتھ برتتا رہا ہوں اور آئندہ بھی برتتا رہوں گا۔ جہاں تک تعلق وزیرمملکت پانی و بجلی کا ہے تو وہ بلاشبہ اپنے حلقہ این اے 84 میں چند چیلوں کے علاوہ منظر سے غائب رہتے ہیں اور فیصل آباد بھی آئیں تو اپنے حلقے کی حالت زار سنوارنے، علاقائی لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی نمبرسکورنگ کیلئے بجلی چوروں کیخلاف بھڑکیں لگاتے رہتے ہیں۔گذشتہ روزمیرا ایک دوست دیار غیر سے پاکستان واپس آیا تو اسکے ایک سوال نے مجھے تعجب اور سوچ کی گہرائیوں میں دھکیل دیا کہ جب چوہدری شیرعلی(والد عابد شیرعلی) فیصل آباد کے میئر تھے تو اس شہر میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا اور پھر گذشتہ سالوں ایک ڈی سی او نسیم صادق کس وجہ سے تخت مشق پر چڑھ کر فیصل آباد سے تبادلے پر ملتان بھیج دیئے گئے تھے۔ رانا ثناء اللہ خاں نے گذشتہ روز اپنے حلقہ انتخاب میں 100 ارب مالیت کی 131 کنال قیمتی اراضی پر 6کروڑ کی مالیت سے شہباز شریف پارک اینڈ سپورٹس سٹیڈیم کے میگا پراجیکٹ کا افتتاح کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نوجوانوں کو علاقے میں مختلف کھیلوں کی معیاری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے میگا پراجیکٹ کی تکمیل کے سلسلے میں انتھک محنت رنگ لائی ہے۔ عابد شیرعلی اور انکے حلقہ انتخاب کے دوسرے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 69 سے رکن صوبائی اسمبلی میاں طاہر جمیل ان دنوں ضلعی انتظامیہ کے افسران کیساتھ مختلف زیرتعمیر شاہراہوں کے دورے کر رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے طاہر جمیل کی طرف سے فیصل آباد کو شہبازشریف کی طرف سے دیئے گئے ڈیڑھ ارب کے میگا پراجیکٹ پر کرپشن کا الزام عائد کیا تھا مگر آج وہی الزام عابد شیرعلی اور انکے چہیتے ایم پی اے میاں طاہر جمیل پر عائد کیا جا رہا ہے۔ اس پر عابد شیرعلی لب کشائی کیوں نہیں کر رہے، کیا آئین اور جمہوریت کے تقاضوں کیمطابق ایک وزیر مملکت اس ملک میں جہاں ہر سو لوڈشیڈنگ اٹھارہ گھنٹوں سے زائد کے دورانیے کو لیکر اندھیرے برپا کرے رکھے وہ اپنی وزارت سے دلچسپیاں ہٹا کر شہر میں اپنی ذاتی سیاست کو پروان چڑھانے اور مبینہ طور پر جو الزامات عائد ہو رہے ہیں کمیشن مافیا کی دیوی کی پوجا کرنے میں مصروف رہ سکتا ہے۔ یہ حقیقت شیرعلی خاندان کو گذشتہ دو بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے تسلیم کر لینی چاہیے کہ اب وہ بلدیاتی سیاست کے بے تاج بادشاہ نہیں رہے۔ فیصل آباد شہر اور ضلع کے گیارہ قومی اور 22 صوبائی اسمبلی کے حلقوں (ایک حلقہ پی پی72 سے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کا امیدوار کامیاب ہوا تھا) سے منتخب ہونیوالے مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی کی اکثریت انکے کردار سے سخت نالاں ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انکی سیاست مسلم لیگ(ن) کے مفاد سے کہیں دور جا کر ذاتی حیثیت کے گرد گردش کرتی ہے۔ عابد شیرعلی بجلی چوروں کی بات کرتے ہیں تو پھر وہ خود فیصل آباد میں ان بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے جو انکے گرد منڈلاتے ہیں جن کی بڑی بڑی صنعتیں ہیں کیا یہ بجلی چوروں کو تحفظ فراہم کرنیوالی بات نہیں۔ خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ میں بجلی چوروں کی نشاندہی کر کے کونسا بڑا تیر مارا جا رہا ہے۔ آج بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اگر انٹرنیٹ پر ریسرچ کی جائے تو ان تمام صوبوں میں بجلی چوروں کے حوالے سے میڈیا کی رپورٹس موجود ہیں۔ ہم صرف اتنا کہیں گے کہ عابد شیرعلی اور رانا ثناء اللہ خاں کی ذاتی سیاسی چپقلش اپنی جگہ لیکن عابد شیرعلی اپنے حلقہ انتخاب پر پہلے توجہ دیں اور پھر فیصل آباد کے میگا پراجیکٹ میں اس طرح مداخلت نہ کریں کہ انکے علاوہ اراکین اسمبلی وزیراعلیٰ پنجاب کو کرپشن کی بازگشت سنا کر باں باں کریں اور انکو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ کیا کسی سیاسی جماعت کا بھی کبھی کوئی رشتے دار ہوا کرتا ہے؟

ای پیپر-دی نیشن