وزارت امور کشمیر کی قائمہ کمیٹی کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پر بریفنگ دینے سے انکار
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سینٹ کی مجلس قائمہ برائے امور کشمیر کے اجلاس میں وزارت امور کشمیر کی جانب سے گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور آئین پاکستان کے تحت متنازعہ علاقہ قرار دینے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مجلس قائمہ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری امور کشمیر طاہر رضا نقوی نے واضح کیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں متنازعہ علاقے ہیں ان کی کونسلوں اور حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ چیئرمین نے کہا کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت کوئی معاملات دائرہ کار میں نہیں آتے۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہاکہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے صدر پاکستان کی جانب سے حکم جاری ہو چکا ہے وزارت کا موقف تو بھارت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے بلکہ بھارت ان کے اس مؤقف کا خیر مقدم کرے گا۔ وزارت امور کشمیر کو 15 مئی2014ء کو مجلس قائمہ کے آئندہ اجلاس میں آزاد کشمیر اور جی بی کی آئینی حیثیت بارے وزارت قانون کی رائے اور دونوں حکومتوں کے رولز آف بزنس، دونوں حکومتوں کے چیف سیکرٹریوں کو کمیٹی کے15مئی کے اجلاس میں طلب کرنے اور وزیر امور کشمیر برجیس طاہر کو اس اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کی ہدایت جاری کردی۔ آزاد کشمیر کے عبوری آئین اور گلگت بلتستان بارے صدارتی حکم نامے کی کاپیاں اور دونوں حکومتوں کے رولز آف بزنس کی کاپیاں مانگ لی گئی ہیں اور ساتھ ان خطوں کی آئینی حیثیت اور سینیٹ کے ان علاقوں تک دائرہ اختیار بارے وزارت قانون سے بھی قانونی رائے طلب کر لی گئی ہے۔ مجلس قائمہ نے وزیر امور کشمیر اور سیکرٹری امور کشمیر کی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا جس پر وزارت کے حکام نے بتایا کہ وزیر امور کشمیر حکومتی مصروفیات کی بنا پر جبکہ سیکرٹری امور کشمیر شاہد اللہ بیگ زخمی ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے مجلس قائمہ کے چیئرمین اور اے این پی اور پی پی کے سینیٹرز نے موقف اختیار کیاکہ اگر پاکستان ان خطوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے تو پھر پارلیمنٹ کو آزاد کشمیر اورج گلگت و بلتستان کی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہے۔ اجلاس چیئرمین سینیٹر باز محمد خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ ارکان کو آگاہ کیا کہ وزارت کی جانب سے کمیٹی کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر اور جی بی کی حکومتوں کے ترقیاتی پروگراموں بارے کمیٹی کو بریفنگ نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ یہ دونوں حکومتوں ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور آئین کے آرٹیکل کے مطابق متنازع خطوں میں قائم ہیں۔