خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں
وزیر کا مرتبہ پانے والے عرفان صدیقی نے لاہور ایڈیٹرز کلب کی تقریب میں آنا تھا ، میںنے تما م انتظامات مکمل کر لئے مگر عین موقع پر پتہ چلا کہ وہ بیرونی دورے پر روانہ ہو گئے ہیں،وزیر اعلی پنجاب کے میڈیا ایڈوائزر نے ایک دن برطانوی سفارت خانے سے فون کر کے پوچھا کہ یہاں وہ کون صاحب تھے جو کافی کا کپ پلاتے پلاتے ویزہ لگوا دیا کرتے تھے۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور پتہ چلا کہ ایک شعیب بن عزیز تو کیا، پورا شریف خاندان ایک بار پھر بیرونی دورے پر روانہ ہو گیا ہے۔انہوں نے دوروں کی اننگز کا آغاز چین کے دورے سے کیا، پھر چین کے کئی دورے کئے اور ساتھ ہی جرمنی کے دورے بھی، پتہ نہیں، ان کا روٹ کیسے ترتیب پاتا ہے یا لندن ان کے راستے میں پڑتا ہے، اس لئے وہاں بھی وہ چند دن کے لئے ضرور جاتے ہیں۔تاحال نواز شریف اور شہباز شریف لندن کے دورے پر ہیں جہاں انہیں دو خوشخبریاں ملی ہیں، ایک تو یہ کہ برطانیہ پاکستان کے دشمن کا دشمن ہے، دوسرے یہ کہ برطانوی پارلیمنٹ نے پاکستان کی امداد دہشت گردی کی جنگ میں کار گزاری سے مشروط کر دی ہے۔ ترکی نے بھی ایساہی اعلان کیا تھاکہ پاکستان کا دوست ترکی کا دوست اور اس کا دشمن ترکی کا دشمن ہو گا۔ شاید پاکستان کی حکومت کو اس اعلان پر یقین نہیں آیا، اس لئے اس نے ترکی کے دشمن ہمسائے شام کو اپنا دوست قراردے دیا ہے۔اور اس کے خلاف فوج نہ بھیجنے کا اعلان ببانگ دہل کیا۔ترکی سوچ رہا ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف ہر دورے میں اکٹھے کیوں جاتے ہیں۔ان کے ساتھ جانے والے اہل خانہ کی فہرست تو کبھی سامنے نہیں آنے پاتی، جو صحافی ساتھ جاتے ہیں ، وہ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔اس حکومت نے یہ اصول بنایا ہے کہ صحافی اپنے خرچ پر جائیں ، مگر حکومتی رشتے دار کس کے خرچ پر جاتے ہیں، اس راز سے پردہ کون اٹھائے۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب عین اس وقت ملک سے چلے گئے جب پوری فوج اپنے شہدا کا دن منانے کی تیاری کر رہی تھی۔فوج کو اس وقت حکومتی حمائت کی سخت ضرورت تھی۔کیونکہ اس پر چاروں طرف سے یلغار ہو رہی تھی۔فوج کا کام بیرونی دشمنوں سے ملک کا دفاع کرنا تو ہے لیکن پاک فوج کو اندرونی دشمنوں سے بھی پالا پڑ گیا ہے جن کا دعوی ہے کہ وہ فوج کا سر جھکا کر دم لیں گے۔آرمی چیف نے ان باغیوں کو وارننگ دی ہے کہ وہ آئین کی اطاعت کریں ورنہ فوج ان سے نبٹنا جانتی ہے۔ میں فوج کا مقلد ہوں مگر مجھے یہ دھمکی کا انداز پسند نہیں آیا۔ جنرل راحیل شریف کے علم میںہو گا کہ سوات کی شورش کے آغاز سے لے کر اب تک باغیوںنے پاکستان کے آئین پارلیمنٹ اور عدلیہ کو ماننے سے کھلا انکار کیا ہے اور افواج پاکستان بارہ برس سے ان کے خلاف دفاع کا مقدس فریضہ ادا کر رہی ہیں۔ تو اب ان کے سامنے آئین کی بین بجانے سے کیا حاصل۔
جس طرح عبدالقادر حسن نے گلہ کیا ہے کہ انہیں اپنے نظریاتی ایڈیٹر کی سالگرہ کی تقریب میںمدعو نہیںکیا گیااسی طرح مجھے بھی یہ گلہ ہے۔ فوج کے دشمنوں کا پراپیگنڈہ یہ ہے کہ فوج نے اپنی حمائت کے لئے اپنے تنخواہ دار میدان میں اتار دیئے ہیں۔میں یہ کہتا ہوں کہ ہم فوج کے تنخواہ دار نہیں، فوج اس ملک کے عوام کی تنخواہ دار ہے اور ہم سب پر اس کے دفاع کا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ فوج اور عوام میں فرق ڈالنے کا کوئی جواز نہیں۔فوج عوام کی ہے، عوام میں سے ہے، عوام کے لئے ہے اور عوام اس فوج کے ہیں۔جو اس فوج کا ساتھی نہیں ، وہ پاکستانی عوام میں سے کیسے ہو سکتا ہے، اور جو عناصر فوج کے خلاف مورچہ لگا کر بیٹھ گئے ہیں، ان کے پشتی بانوں کے چہروں سے نقاب اتارنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ لوگ خود اپنے پشتی بانوںکے گن گاتے ہیں، وہ ان کے ساتھ امن کی آشا کا راگ الاپتے ہیں۔ ادھر سے مودی پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ادھر ہمارے ہاں فوج سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، بھلا بتائیں کہ یوم شہدا جو کئی برسوں سے منایا جا رہا ہے، ا س سے جمہوری عمل کو کیا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ملاقات کرکے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کا مقابلہ مل کر کریں گے۔یہ اعلان فوج کو بدنام کرنے کا ایک بہانہ ہے۔اگر غیر آئینی اقدام کا اتنا ہی خطرہوتا تو نواز شریف، شہباز شریف یوں لندن کے سیر سپاٹے کے لئے کیوں نکل کھڑے ہوتے۔
سیر کا ایک موقع مجھے بھی ملا ہے ۔ ابصار عبد العلی کی دعوت پر میںنے حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ میں کالم نویسی پر ایک مذاکرے میں شرکت کی ہے۔اس محفل کو ایس ایم ظفر، قیوم نظامی،ادیب جاودانی، رئوف طاہر نے بھی رونق بخشی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات نے خوب سوال پو چھے۔اب کالم نویسی کا دور لد گیا ، یہ تو اینکروں کا دور ہے اور کالم نویس کا کردار ماند پڑتا جارہا ہے۔بہر حال کالم نویسی کے تقاضوں اور اس کی اہمیت پر باتیںہوئیں، کالم نویسی کی اہمیت وہی ہے جو ، خود صحافت کی ہے۔ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ قارئین پہلے تو کالم نویس کے کردارکا وزن کرتے ہیں ، پھر اس کے کالم کا وزن محسوس کرتے ہیں۔قیوم نظامی نے کہا کہ کالم نویسی میں پاکستان کو فوقیت حاصل ہے۔ ادیب جاودانی نے نئے لکھنے والوںکو ریاضت کا درس دیا اور رئوف طاہر نے اعتراف کیا کہ وہ ہمیشہ نوائے وقت کی سوچ کے دائرے میں رہتے ہیں۔ابصار عبدالعلی کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ محفل جمانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور خاص طور پر صحافت کا سبق بھولنے نہیں دیتے۔میری تو عید ہو گئی، کوئی غیر ملکی دورہ نہ سہی،یوم شہدا کی تقریب میں حاضری کی سعادت بھی نہ سہی، مگر شہر آنے کا ایک بہانہ تو مل گیا۔