• news

طالبان کی آپسی لڑائی جنوبی وزیرستان پر کنٹرول کی ’’قبائلی جنگ‘‘ ہے

اسلام آباد (انعام اللہ خٹک/ دی نیشن رپورٹ) تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جاری باہمی تنازعہ دراصل قبائلی جنگ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عسکریت پسند گروپ اپنے یکساں مذہبی نظریاتی فکر کے تحت متحد ہونے کے بجائے اب نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے ہیں۔ ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خالد خراسانی اپنے علاقے میں سرگرم ہیں جبکہ شہریار محسود اور خان سید  سجنا کے گروپوں کے درمیان لڑائی کو بھی انہی بنیادوں پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے یہ لڑائی جنوبی وزیرستان پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ہے جہاں پر زیادہ تر محسود قبائل کے لوگ بستے ہیں۔ ’’دی نیشن‘‘ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق سجنا اور شہریار کے درمیان لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب وزیرستان پر محسود قبائل کی حکومت قائم کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ اس لڑائی نے محسود قبائل کو سجنا کے تحت اکٹھا کر دیا ہے جبکہ دوسرے مخالف گروپ سجنا کو جنوبی وزیرستان سے نکالنے کیلئے شہریار کو استعمال کر رہے ہیں اگر جنوبی وزیرستان میں دوسرے قبائل داخل ہو گئے تو خدشہ ہے کہ محسودوں کو اپنے علاقے سے محروم ہونا پڑیگا۔ اعظم طارق کے نام سے معروف رئیس خان جو طالبان شوریٰ کے سربراہ بھی ہیںکے قریبی ذرائع نے بتایا کہ خان سید سجنا طالبان سے زیادہ محسود رہنما کے طور پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع نے کہا طالبان رہنمائوں کے درمیان شدید اختلافات کے بعد مولوی فضل اللہ محض ایک مصنوعی سربراہ بن کر رہ گئے ہیں۔ سجنا اس وقت ٹی ٹی پی کی سربراہی کیلئے نہیں بلکہ صرف محسود قبائل کی قیادت کیلئے لڑ رہے ہیں۔ سجنا کو کئی بار ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کی پیشکش کی گئی مگر اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سجنا کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ہم سجنا کو اعتماد میں لئے بغیر باجوڑ، مہمند، اورکزئی اور خیبر ایجنسی کو محسودوں کی سرزمین پر کھلے عام سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مذاکرات کے باوجود چارسدہ میں پولیس پر حملہ او خیبر پی کے کے دیگر علاقوں میں حملوں کی وجہ بھی یہی تھی کہ طالبان آپس میں متحد نہیں تھے۔ ٹی ٹی پی مہمند سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے بتایا فضل اللہ افغانستان میں طالبان پر تو اثرانداز ہو سکتا ہے مگر وہ قبائلی علاقوں میں مؤثر نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے ٹی ٹی پی میں تقسیم ہوئی اور طالبان رہنما اپنی علاقائی شناخت برقرار رکھنے کے حوالے سے سخت گیر ہوتے گئے۔ دوسری طرف سکیورٹی تجزیہ کار اسد منیر کا کہنا ہے کہ طالبان کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات سکیورٹی فورسز کی فتح اور ٹی ٹی پی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہم ہیں۔ طالبان کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تاہم دیکھنا ہے کہ محسود قبائل کب تک اس لڑائی کا مقابلہ کرتے رہینگے کیونکہ یہ لڑائی اب ٹی ٹی پی کی لڑائی نہیں بلکہ محسود قبائل کی دیگر قبائل سے ہونے والی جنگ ہے۔ ذرائع کے مطابق سجنا چاہتا ہے کہ وزیرستان سے ہجرت کرنے والے تمام محسود لوگ اپنے علاقوں میں واپس آ جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن