مذاکرات میں پیشرفت توقع سے کم ہے‘ جنگ بندی کے مخالف ہمارے اور طالبان کے دوست نہیں : نوازشریف
لندن(نیٹ نیوز) وزیرِاعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ بعض عناصر طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے خوش نہیں یہ عناصر نہ ہمارے دوست ہیں اور نہ ہی شاید وہ تحریکِ طالبان کے دوست ہیں۔ بی بی سی سے خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ بعض عناصر معاملات بگاڑنا چاہتے ہیں اور وہ امن کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انہی عناصر نے سبزی منڈی اسلام آباد میں دھماکہ کیا دیگر مقامات پر بھی ایسے دھماکے کئے۔ ہم ان عناصر کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے پہلے سرکاری دورے کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں حملوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ پوری طرح بند نہیں ہوئے۔ اس سوال کے جواب میں کہ بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کے لئے پاکستان میں امن عامہ کی صورت حال کیسے بہتر ہو سکتی ہے، وزیرِاعظم نے کہا کہ سکیورٹی کا مسئلہ نائن الیون سے چل رہا ہے، یعنی یہ اس زمانے سے چل رہا ہے جب پاکستان میں آمریت تھی۔ اگر پاکستان میں مارشل لا نہ آتے تو کبھی سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا۔ جمہوریت کے دوران آج تک نہ ملک نہ ہی عوام کو سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہوا ہے۔‘ شدت پسندی کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ماضی کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں نے سیاست دانوں کو کنارے لگا کر ایسے عناصر کے ساتھ تعلق بڑھانے کو ترجیح دی جن کا جمہوریت کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا، ایسے عناصر کے ساتھ تعاون کا تو یہی نتیجہ نکلنا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری اپنی غلطیوں اور ہمارے اپنے قصوروں کی پیداوار ہے۔‘سکیورٹی کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے حکومت، افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں قدم بڑھا رہی ہیں، ہماری پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ بات چیت شروع ہے، اس سلسلے میں پیش رفت ہماری توقع سے کم ہے، تاہم اگر مزید خون بہائے بغیر ہم امن حاصل کر لیتے ہیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘ آرمی چیف کے حالیہ بیان کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے درست کہا ہے کہ آئین سپریم ہے ہر ایک کو اس کی تکریم کرنا چاہئے، فوج کے سربراہ کے بیان سے بہت سے ابہام دور ہوگئے ہیں۔‘ جب وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی حمایت کریں گی، لیکن جب ایک صحافی کسی ریاستی ادارے پر انگلی اٹھاتا ہے تو ملک بھر میں شور کیوں برپا ہو جاتا ہے، اس پر نواز شریف نے کہا کہ ’میرے خیال میں ایک دم یہ اخذ نہیں کر لینا چاہئے کہ کون اس کا ذمہ دار ہے۔ جب تک حقائق سامنے نہ آ جائیں، قیاس آرائی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں کمشن کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہئے۔ پتہ چل جائے گا کہ کون اس کا ذمہ دار تھا۔‘ بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں نوازشریف نے کہاکہ ’بلوچستان کو زخم لگائے گئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی کو کیسے قتل کیا گیا پھر چند لوگوں کی موجودگی میں ان کو دفن کر دیا گیا۔ یہ مناظر کسی کو بھولے نہیں، میں بھی بلوچوں کے زخموں کو محسوس کرتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے پچھلے ادوار میں کچھ نہیں کیا گیا، لیکن اب بلوچستان کی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وزیِراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا ہے کہ ناراض عناصر سے بات کریں اور انہیں سیاست کے قومی دھارے میں واپس لائیں۔ ’ہم بلوچستان کے ہر شہر کو گیس فراہم کریں گے اور سڑکوں کا جال بچھائیں گے۔ ان پانچ سال میں بلوچستان میں بے پناہ کام ہوگا۔ احساس محرومی کم کریں گے۔ جنہوں نے بلوچوں کے ساتھ ظلم کیا ہے انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا چاہئے۔‘ شدت پسندی کے شدید رجحانات کے بارے میں سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ اس کی وجہ آمرانہ دور کے دوران قانون و انصاف سے انحراف ہے، سماجی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں ہیں، اگر پاکستان جمہوری راستے پر رہتا، تو آج ان تمام چیزوں کا نام ونشان تک نہ ہوتا۔‘ آمریت میں ذات پات، فرقہ واریت، اونچ نیچ، سماجی اور معاشی ناہمواریاں جنم لیتی ہیں۔ آج سے 40 سال پہلے کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون شیعہ اور کون سنی ہے لیکن جب غیر جمہوری قوتیں آتی ہیں تو فرقہ وارانہ لوگ ان کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور آمریت دہشت گردی کے لئے بریڈنگ گراؤنڈ بن جاتی ہے۔‘ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں: ’میرے صدر کرزئی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے بھارت میں جو بھی آئے ہمیں ان سے اچھے تعلقات بڑھانا ہوں گے۔ بھارت کے لوگ جسے مینڈیٹ دیں گے ہم اس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔‘ ’ہم 1999ء کے اچھے دور کو واپس لائیں گے جب واجپائی پاکستان آئے تھے۔ ٹرین، تجارت اور ویزا کی سہولیات کو بہتر بننا چاہئے۔ ہم بھارتکے ساتھ بجلی پر بھی بات کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر اور دیگر معاملات بھی ٹھیک کرنے کے لئے کوشش کی جائے گی۔‘ وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ وہ عنقریب ایران کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جس کا مقصد تعلقات کو مضبوط کرنا گیس، تجارت اور سرحدی معالات پر بات کرنا اور ایران کے ساتھ تاریخ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔ اپنی حکومت کے گذشتہ دس ماہ کی کارکردگی کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت تعلیم، توانائی، معیشت اور شدت پسندی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ’یہ چاروں چیزیں ہمارے منشور میں شامل تھیں ہم انھی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملکی معیشت میں بہتری آ رہی ہے، پاکستان کی معیشت میں ایک نیا موڑ آ رہا ہے ، ہم تعلیم پر بجٹ دو فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک لے جائیں گے۔‘ اپنے تیسرے ہدف کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں نئے بجلی گھر لگنا شروع ہو گئے ہیں ’ہم جلد توانائی کے مسئلے پر قابو پا لیں گے، بلکہ 20 سے 25 سال آگے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘ گذشتہ 65 سال میں پاکستان میں 23 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگے، اگلے آٹھ سال میں اس میں 21 ہزار میگا واٹ کا اضافہ کیا جائے گا ’یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہو گی، کہاں 65 سال میں 23 ہزار کہاں اگلے آٹھ سال میں 21 ہزار میگاواٹ۔اگر ہمیں یقین نہ ہوتا تو ہم منشور میں اس کا وعدہ نہ کرتے۔‘ وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعاون کے حوالے سے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں برطانیہ کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں۔ برطانیہ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کے لئے بہت کچھ کر رہا ہے ، کئی ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں جنھیں ہم بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘ برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے بھی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے برطانیہ پاکستان کی بھرپور مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف برطانیہ کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔