ذرائع ابلاغ پر پابندی کا نقصان
وزیراعظم میاں محمدنواز شریف نے لندن میں فیصلہ سنا دیا کہ کسی ٹی وی چینل اور اخبار پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں‘ میڈیا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جنگ اور جیو کو جبری بندش کے خدشے کے بغیر کام جاری رکھنا چاہیئے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کے کسی بھی ادارے پر پابندی عائد کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ تاہم ابلاغ کے ہر ادارے کو حدود و قیود میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم کا یہ گمان درست ہو کہ میڈیا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن عوام کی اکثریت کو اس سے اتفاق نہیں۔ بات کسی ایک میڈیا گروپ کی نہیں ‘ عمومی رائے یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ عوام کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے کے بجائے ان کے ذہنوں کو ابہام کا شکار کر رہے ہیں۔ کسی اعتراض پر کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم تو وہ پیش کرتے ہیں جو عوام کو پسند ہو۔ یہ دعویٰ یا دلیل بنیادی طور پر مضحکہ خیز اور غلط ہے۔ ذرائع ابلاغ کاکام عوام کی خواہشات پر چلنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کی اصلاح اور رہنما ئی کرنا ہے۔ ان میں غلط اور صحیح کی تمیز پیدا کرنا ہے۔ ایک رہنما کا کام بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کے پیچھے نہیں چلتا بلکہ عوام کو اپنے پیچھے لیکر چلتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔ اس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ ایک سابق حکمران نے تو اعتراضات اٹھانے پر کہہ دیا تھا کہ اپنا ٹی وی بند کردیا کریں۔ لیکن کیا یہ کوئی حل ہے؟ میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ حکومت آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن ہر آزادی کے حدود و قیود ہوتی ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اظہار رائے کے نام پر مادر‘ پدر آزادی نہیں دی جاسکتی۔ بعض ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جو شاید کوئی بھی اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھ سکیں۔ خواتین سے متعلق بعض اشتہارات پر خود خواتین کی طرف سے کب سے احتجاج ہو رہا ہے ۔ٹی وی چینلز ہی پر ایسی خواتین کو جگہ دی جاتی ہے جو کھلم کھلا پردے کے خلاف تقریر فرما رہی ہوتی ہیں اور اس کو ذاتی معاملہ قرار دیتی ہیں۔ بے شک ذرائع ابلاغ کے کسی حصہ پر پابندی نہ لگائی جائے لیکن اسے روایات اور معاشرتی تقاضوں کا پابند تو کیا جائے۔ اس وقت ذرائع ابلاغ میں ایک دوسرے کے خلاف جو محاذ آرائی چل رہی ہے وہ مالکان کا مسئلہ ہے اور پابندی لگی تو نقصان ان کارکنوں کا ہوگا جو صرف اپنی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں۔ پابندی کا مطالبہ کرنے والے بے روزگار ہو جانے والے ہزاروں افراد کو روٹی فراہم نہیں کرسکیں گے۔ وزیراعظم نے لندن میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے‘ مغرب میں کھڑے ہو کر انہیں یہی کہنا چاہیئے تھا۔ ورنہ ماضی میں وہ بھی ذرائع ابلاغ کی آزادی اظہار رائے سے پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ معاملات اپنی جگہ لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ لوگ محض اپنے مفاد کی خاطر فوج کے حق میں جو ریلیاں نکال رہے ہیں اور لمبی لمبی تقریریں کر رہے ہیں یہ سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیئے ورنہ لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ فوج کے حق میں یہ مظاہرے خود فوج کرا رہی ہے۔ فوج کو ایسی حمایت کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کے حق میں ریلیاں خطرہ ہیں۔ یہ جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور کچھ لوگوں کو بوٹوں کی آواز آنے لگی ہے۔ شیخ رشید نے تو ایک ٹی وی چینل پر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان ٹھن چکی ہے اور اب خاکی فرشتوں کا اقتدار میں آنے کا بہت امکان ہے۔ اس جھگڑے کو جلد از جلد ختم ہو جانا چاہیئے۔یاد رہے کہ اس جھگڑے میں کچھ صحافی بھی بے نقاب ہو رہے ہیں اور فوج پر بھی تنقید ہو رہی ہے جو بوجوہ سامنے نہیں آرہی کہ کہیں تنقید کرنے والے بھی گرفت میں نہ آجائیں۔