مخصوص میڈیا جان لے قوم پاک فوج کے ساتھ ہے
پھر پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے بلکہ اس کے ساتھ رواں دواں بلکہ اس کی ہمسفر ہو گئی ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ پاک فوج کی منزل پاکستان دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ جو بھی دشمن کا دوست ہو گا، پاک فوج اس کے خلاف ہو گی۔ دفاعی ادارے بھی اسی مقصد کے لئے بنائے گئے ہیں۔ آئی ایس آئی زیادہ معروف اور محبوب ہو گئی ہے۔ اب کچھ اور محبوب ہو گئی ہے اب تو آئی ایس آئی پوری دنیا میں مشہور ہو گئی ہے۔ پہلے بھی تھی۔ ساری دنیا اس کی صلاحیتوں کی معترف ہے۔
یہ جو کچھ ہوا ہے اس کے پیچھے کتنی بڑی پلاننگ تھی۔ کتنی فنڈنگ ہوئی۔ اب تک ہو رہی ہے۔ لندن سے اب تک اطلاعات آ رہی ہیں۔ انہوں نے چاہا تھا کہ بیرونی طاقتوں کی خواہش کے مطابق پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کیا جائے اور ناکام کیا جائے جبکہ اب یہ دونوں مقاصد بری طرح فیل ہو گئے ہیں لوگ پاک فوج کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔ یہ جذبات پہلے سے فوج کی محبت میں موجود تھے اب ان کے اظہار کا موقع مل گیا ہے۔ یہ تو ایک نعمت کی طرح ہے کہ پھر دنیا والے پریشان ہو گئے۔ لوگ پاکستان میں پاک فوج کے لئے اب بھی اپنے دل و نگاہ فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے غیر مشروط طور پر جمہوریت کی حمایت کی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق معاملات چلانے کے لئے اپنی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے تو محب وطن اور آزاد میڈیا کی بھی تعریف کی ہے مگر ایک مخصوص میڈیا گروپ مسلسل پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہا ہے جس سے صرف بھارت اور بیرونی قوتیں خوش ہو رہی ہیں۔ جو کام وہ نہ کر سکے پاکستان کے اندر کچھ میڈیا والے پاکستان کے خلاف کر رہے ہیں کیونکہ یہ سیدھی بات ہے کہ پاک فوج کے خلاف بات پاکستان کے خلاف ہے۔ مولا علیؓ نے کہا تھا کہ دشمن کا دوست (ایجنٹ) بھی دشمن ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بار بار پاکستان اور نظریہ پاکستان کی بات کی ہے۔ لگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ روحانی طور پر خاص تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور کا دورہ کریں اور مرشد صحافت مجاہد صحافت نظریہ پاکستان کے پاسبان مجید نظامی سے تفصیلی ملاقات کریں۔ نظریہ پاکستان کے بغیر پاکستان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو اپنی تقریر میں مجید نظامی استعمال کرتے ہیں۔ یہ الفاظ اصل میں قائداعظم کے ہیں۔ وہ کیسی بصیرت اور حکمت والے انسان تھے۔ انہوں نے جب یہ جملہ کہا تھا تو انہیں اس کی پوری معنویت اور حقیقت کا علم تھا۔ انہیں علم تھا کہ ایک دن یہ ثابت ہو جائے گا اور اب کشمیر کے بغیر جو ہمارا حال ہے اس سے برا حال کیا ہو سکتا ہے۔ مجید نظامی کے بقول ریگستان بننے کے نظرئیے سے دوچار پاکستان کے حکمرانوں کو احساس ہی نہیں کہ وہ کس ملک کے وزیراعظم ہیں جس جسم میں شہ رگ نہ ہو وہ زندہ ہو تو یہ معجزہ ہے۔ جن حالات میں پاکستان قائم ہے ایسے حالات میں دنیا کا کوئی ملک باقی نہیں رہ سکتا۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر قائداعظم کی برکت سے ایک معجزے کی طرح ہے۔ جنرل راحیل نظریہ پاکستان میں نظریہ پاکستان اور پاک فوج کے موضوع پر لیکچر دیں۔
اور اگر میں یہ کہوں کہ پاک فوج اور اس کے دفاعی ادارے پاکستان کے لئے ایک نعمت ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہو گا۔ حکومتوں نے اس ملک کا جو حال کیا ہے وہ سب پاکستانی جانتے ہیں۔ اس میں سیاسی (جمہوری) حکومتیں اور فوجی حکومتیں دونوں شامل ہیں۔ کسی حکومت نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے کچھ کیا ہوتا تو آج اس عظیم ملک کی تاریخ اور تقدیر ہی مختلف ہوتی۔
نجانے کون اس ملک میں کیا تماشا لگانا چاہتا ہے کہ حامد میر والا ایشو کھڑا کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک خود ساختہ واقعہ ہے، جسے ایک المیہ بنا کے پیش کیا جا رہا ہے مگر المیہ تو اس کے بعد شروع ہوا ہے اور ابھی شروع ہونے والا ہے۔ اس ملک میں ہزاروں شہید ہونے والے لوگوں کا نام تک کوئی نہیں جانتا۔ سینکڑوں فوجی جوانوں اور افسران اس نامعلوم دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ یہ پاکستان کے اندر کا محاذ ہے جس پر ہماری فوج ڈٹی ہوئی ہے۔ فوج نہ ہوتی تو دہشت گردوں نے نجانے اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہوتا۔ دہشت گردوں کے ساتھ ملک کے اندر کے لوگ ہوتے ہیں تو کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ ان کی نشاندہی دفاعی ادارے کرتے ہیں تو حق اور سچ کی جھوٹی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ہم میں سے دشمن کے ایجنٹ جب چاہتے ہیں فوج اور فوجی اداروں کے خلاف بات کرتے ہیں اور آج بھی مسلسل کر رہے ہیں۔ انہیں کوئی روکتا نہیں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ حامد میر کی عیادت کرے جبکہ ہزاروں جان دینے والوں کے لئے کسی نے ہمدردی بھی نہیں کی۔ صرف تعزیتی بیان دئیے ہیں۔ حاصل بزنجو ہزارہ کمیونٹی کے شہیدوں کے گھر تو نہیں گئے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ حکمران یہ بھی کہہ دیتے کہ بغیر تفتیش کے فوراً ہی آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈا ایک بے معنی بات ہے۔ اسے وطن دشمنی نہ کہتے مگر یہ تو کہتے کہ یہ وطن دوستی نہیں ہے۔ مخصوص میڈیا نے یوں نہیں کہا کہ یہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔ پہلے تو حکومتوں پر الزام لگتے تھے۔ ان کے خلاف سچ بولنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔ سچ کیا ہے واقعی پتہ بھی نہیں ہے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے پہلے دن جو کہا ”حامد میر کے قاتل آئی ایس آئی پکڑ کے دے“ کیا آئی ایس آئی پنجاب پولیس ہے۔ یہ بات سندھ حکومت سے کیوں نہیں کہی جاتی۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب اپنے دوست افتخار احمد کو ہم پیار سے افتخار فتنہ کہتے تھے۔
میں ایک بار پھر یہ کہوں گا کہ یہ منصوبہ بندی جس کی بھی تھی الٹی پڑ گئی ہے۔ لوگوں نے ان کی باتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ لوگوں نے اس مخصوص میڈیا گروپ کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اب اسے جان چھڑانی مشکل ہو رہی ہے۔ اب خفیہ طور پر ان کی طرف سے معافی تلافی ہاتھ جوڑ کر منت سماجت بھی تسلیم نہیں کی جا رہی ہے۔ اب جو ہو گا وہ قانونی طور پر ہو گا۔ کیبل ایسوسی ایشن کے صدر خالد آرائیں کی پریس کانفرنس کے بعد سب کو پتہ چل گیا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ ہمیں برادرم حامد میر سے ہمدردی ہے مگر اسے استعمال کیا گیا ہے ورنہ اسے یہ کالم نہ لکھنا پڑتا جس کا عنوان یہ ہے ”کیا میں غدار ہوں“ یہ سوال خود ان کے دل میں کیوں پیدا ہوا ہے۔