عوامی تحریک شہر شہر‘ عمران کا اسلام آباد میں احتجاج ہو گا
فرخ سعید خواجہ
میاں نواز شریف نے 5 جون 2013ء کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو عام تاثر تھا کہ وہ حکومت سے باہر جماعتوں کو بھی اپنی حکومت میں شمولیت کی دعوت دیں گے اور کوشش کریں گے کہ پچھلی حکومت کی طرح اُن کی حکومت بھی اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کرے۔ اسی جذبے کے تحت غالباً مسلم لیگ (ن) نے کوشش بھی کی لیکن ماسوائے جمعیت علمائے اسلام (ف) مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر جماعتوں کو شامل نہ کروا سکے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی بس واجبی سی شامل ہوئی جن کے وزراء کو من پسند وزارتیں نہ دیئے جانے پر بالآخر چند ماہ بعد انہوں نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے گھر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب آئندہ چند ہی روز میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا حکومت میں رہنے یا الگ ہونے کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔
نواز شریف نے اپنے چھ ماہ کے دورِ حکومت میں ہی واضح کر دیا کہ اُن کا ویژن واضح ہے جس کے تحت توانائی کا بحران دور کرنا اور دہشت گردی کا خاتمہ ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے تاکہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو سکے۔ اُن کے ٹیم نے دن رات محنت کر کے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں توانائی کے سیکٹر میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر لیا وہاں ڈالر کی قیمت 112 روپے سے کم کر کے 100 روپے سے نیچے لا کر بڑے بڑے سیاسی و معاشی جغادریوں کو حیران کر دیا۔ یوں لگتا تھا کہ پاکستان ٹیک آف کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے کہ نواز شریف ایک نئی صورت حال سے دوچار ہو گئے۔ان کی حکومت کی جانب سے سابق آرمی چیف/ سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ اپوزیشن کے اس طعنے پر کیا گیا کہ’ حکومت اب پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلاتی جبکہ پہلے جب اس کے قائدین اپوزیشن میں تھے توبہت زور شور سے اس کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا اعلان کیا گویا بِھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہو۔ پرویز مشرف کے وکلاء نے جس دیدہ دلیری کے ساتھ اعلانات کئے کہ پرویز مشرف کو ہاتھ لگایا تو فوج ایسی تیسی کر دے گی ، اس سے اُن باتوں کو اشتعال کا لب و لہجہ دینے میں کوئی کس باقی نہ چھوڑی گئی۔ چوہدری شجاعت حسین جیسے سیاستدانوں نے کہا کہ سابق آرمی چیف کے خلاف ’’غدار‘‘ کی بجائے قانون شکن کا لفظ استعمال کرو اور یہی بات ’’فرسٹ پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام لاہورر کی مال روڈ پر ایک شادی گھر میں ریٹائرڈ فوجیوں کے ایک بہت بڑے اجتماع میں کہی گئی۔ یہاں پرویز مشرف نے ہسپتال سے ٹیلی فونک خطاب کرنا تھا لیکن عین وقت پر پروگرام تبدیل کر دیا گیا اور اُن کے دورِ حکومت کے سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے اس تقریب میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس دوران دوسری جانب حکومت کے بعض اہم رہنماء آئین کے آرٹیکل 6 میں درج لفظ ’’غداری‘‘ کو استعمال کرتے رہے انہوں نے بھی سیاسی حکمت عمل سے کام لے کر اس کی بجائے ’’ آئین وقانون شکنی‘‘ کے ا لفاظ کا استعمال موزوں نہ سمجھا۔ سو نتیجہ جو نکلا سب کے سامنے ہے۔ اس دوران بہت سے لوگوں نے غیر ضروری باتیں کیں خواہ اُن کا تعلق عسکری ادارے سے تھا یا پارلیمنٹ سے ، پھر بھی خدا خدا کرکے دھول بیٹھ ہی گئی۔
البتہ 11 مئی کو ڈاکٹر طاہر القادری کا ملک کے انتخابی نظام بلکہ سیاسی نظام کے خلاف پاکستان کے 80 شہروں میں احتجاج کی کال دینے کا اعلان اور عمران خان کے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اُسی روز انتخابی دھاندلی کے خلاف سونامی لانے کا عزم ، لوگوں کیلئے کسی نہ کسی لحاظ سے تجسس کا باعث ضرور بن گیا ہے۔ اگرچہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نہ حکومت گرانا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی کے اشارے پر باہر نکلے ہیں لیکن عام تاثر یہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ 11 مئی کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں صرف پاکستان عوامی تحریک کا شو ہو گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے حسن محی الدین کی قیادت میں ریلوے سٹیشن سے لکشمی چوک تک ریلی نکلے گی جو بلاشبہ بہت بڑی ہو گی جبکہ تحریک انصاف کے کارکن 10 مئی کی صبح کو لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہونا شروع ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ 11 مئی کو فجر تک جاری رہے گا۔
اِس کے برعکس حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے البتہ کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں یقین ہے کہ دونوں اطراف سے بالغ نظری کامظاہرہ کیا جائے گا اور 11 مئی کا دن خیریت سے گزر جائے گا البتہ 11 مئی کے احتجاج کے اثرات اگلے چند ہفتوں تک محسوس کئے جاتے رہیں گے اُس کے بعد رمضان المبارک کی آمد آمد ہوگی اور بات افطار پارٹیوں تک سمٹ جائے گی۔
ان سب باتوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اُن کی جانب سے اپنی پارلیمانی پارٹیوں، مرکزی اور صوبائی تنظیموں کے عہدیداران کو نظر انداز کرنا، اُن کے اجلاس تک منعقد نہ کرنا حکمران مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت میں اضافہ نہیں بلکہ کمی کا باعث بن رہا ہے۔ عام مسلم لیگی کاکنوں کو بھی اس بات کااحساس ہونا چاہئے کہ وہ بھی حکومت میں شامل ہیں اور وزیراعظم سمیت وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ان کی جانب توجہ دیتے ہیں۔ یہی وہ سیاسی عمل ہے جس سے عوام میں ووٹ کی قدرو منزلت اجاگر ہو گی اور وہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اگلی حکومت بھی اپنی پسند نا پسند کے مطابق منتخب کرنے کا حق استعمال کر سکیںگے۔