• news

کراچی اور سندھ کی 5 روز تک بندش

 شہزاد چغتائی
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی یقین دہانی کے بعد ایم کیو ایم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اورکارکنوں کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے تحریک مؤخر کر دی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات کرے گی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے رحمن ملک کے ساتھ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کی۔ ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا کہ لاپتہ اورجاں بحق افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے اور نوکریاں دی جائیں ایم کیو ایم اگر الٹی میٹم واپس نہیں لیتی تو حکومت کی مشکلات بڑھ سکتی تھیں اور اسلام آباد کے ساتھ کراچی بھی دھرنوں اور احتجاجی سیاست کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔کراچی میں مفاہمتی جادوگر رحمن ملک اس وقت سرگرم ہو گئے جب ایم کیو ایم نے دوبارہ احتجاج شروع کرنے کیلئے رابطہ کمیٹی کااجلاس طلب کر لیا تھا۔ رحمن ملک کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو تیسری قوت قتل کررہی ہے انہوں نے کہا کہ پہلے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو لڑانے کی کوششیں کی گئیں اب ایم کیو ایم کو عسکری حلقوں سے بدظن کیا جا رہا ہے۔ رحمن ملک نے ایم کیو ایم کو احتجاج سے روکنے کیلئے رابطے کئے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ملاقات کی انہوں نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو بھی فون کیا۔ کراچی میں یہ سوال کیا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے چار کارکنوں کا قاتل کون ہے؟ ایم کیو ایم نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے تحقیقات کیلئے ارکان اسمبلی پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس مذمت کی قرارداد منظور کرنے کے بعد ملتوی کر دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے چار کارکنوں کی لاشوں کی شناخت میں کئی روز لگ گئے جو تمام کی تمام مسخ ہو چکی تھیں۔ مقتولین کو ان کے فنگر پرنٹس سے شناخت کیا گیا مقتولین کو 13 اپریل کو 6 ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی اور بلوچستان کے حالات ایک جیسے ہو گئے ہیں۔ جہاں لاپتہ افراد کی نعشیں مل رہی ہیں اور کوئی پُرسان حال نہیں یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی علاقے سے لاشیںملی ہوں۔ پُراسرار واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس پر سب کو تشویش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں نعشیں روزانہ ہی ملتی ہیں اور روز ایم کیو ایم کے کئی کارکن قتل کر دئیے جاتے ہیں جس پر چہ میگوئیاں بھی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ بند ہو گئی ہے ہر کارکن کے قتل یا نعش ملنے پر ایم کیو ایم احتجاج نہیں بھی کرتی لیکن جب میمن گوٹھ سے چار کارکنوں کی بیک وقت مسخ شدہ نعشیں ملیں تو یوم سوگ منایا گیا۔ ایم کیو ایم کے غصہ کو کم کرنے اور مزید احتجاج کو روکنے کے لئے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کراچی پہنچے۔ جس روز حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا اس کے دوسرے روز دھابے جی سے چار نوجوانوں کی لاشیں ملیں۔ اس روز 19 اپریل کا دن تھا پھر یکم مئی کو چار لاشیں ملیں۔ حیرت ناک بات ہے کہ یہ لاشیں کراچی کے دیہی علاقوں سے مل رہی ہیں۔ دھابے جی میں کچھ عرصے قبل پانچ افراد ایک مزار پر مرے ہوئے ملے تھے ان افراد کی موت کا معمہ آج تک حل نہیں ہوا۔ پھر منگھو پیر کے دیہی علاقے میں ایک مزار پر سات محنت کش پُراسرار حالات میں مُردہ ملے۔ جن کی ہلاکت کو طالبان سے منسوب کر دیا گیا اور یہ دلیل کی گئی کہ طالبان مزار پر جانے والوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کراچی آپریشن سے پولیس اور اہم شخصیات اور بیورو کریٹ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور شہر میں خوف وہراس کی بدترین فضا قائم ہو گئی ہے۔ کئی ایسے نوجوان گرفتار کر کے غائب کر دیئے گئے ہیں جن کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں، جس پر وہ والدین پریشان ہیں جن کے بچے کو سادہ لباس میں لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران لوگ اپنی دشمنیاں نمٹا رہے ہیں اور پولیس کی ملی بھگت سے مخالفین کو تنگ کر رہے ہیں۔ پُراسرار گرفتاریوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے جس پر شہری پریشان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پُراسرار گرفتاریاں سیاسی نہیں ہیں۔ اس دوران کراچی اور اندرون سندھ میں ایک ہفتے کے دوران دو ہڑتالوں کے باعث شہری زندگی مفلوج ہو گئی اور حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ بدھ 30 اپریل کوجسقم کی ہڑتال کے بعد 2 مئی کو ایم کیو ایم نے 4 کارکنوں کی ہلاکت پر یوم سوگ منایا، جمعرات یکم مئی کو تعطیل تھی پھر ویک اینڈ آ گیا اس طرح کراچی اور سندھ 5 روز تک بند رہا اور تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ 5 روز کی بندش کے بعد جب کراچی اورسندھ کے دیگر شہروں میں کاروبار زندگی بحال ہوا تو شہریوں نے سکون کا سانس لیا۔ کراچی میں ایک جانب ایم کیو ایم کے کارکنوں کی لاشیں مل رہی ہیں تو دوسری جانب ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مشیر وقار الحسن زیدی کے قتل کے بعد پرویز علوی ایڈووکیٹ اور ان کے صاحبزادے زاہد علوی کو دہشت گردوں نے جاں بحق کر دیا جس پر وکلا ایک بار پھر سڑکوں پر آ گئے اور انہوں نے دو روز تک احتجاج کیا اور عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ پیر کو وکلا نے سندھ اسمبلی تک ریلی نکالی اور دھرنا دیا۔ وکلا دیواریں پھاند کر سندھ اسمبلی کے اندر داخل ہو گئے جس کے بعد صوبائی وزیر تعلیم کی مداخلت اور یقین دہانی کے بعد وہ منتشر ہو گئے۔
 دریں اثناء منگل کو وزیر اعظم نواز شریف کراچی پہنچ گئے۔ نواز شریف جب بھی کراچی آتے ہیں تو اس کے ساتھ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی تبدیلی کی افواہیں جنم لیتی ہیں اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کی توپوں کا رُخ گورنر سندھ کی جانب مڑ جاتا ہے اس بار مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے سندھ اسمبلی میں بھی گورنر سندھ کو آڑے ہاتھوں لیا اور نواز شریف ایک ایسے موقع پر کراچی آئے ہیں۔ جب مسلم لیگ کے رہنما غصہ میں بھرے بیٹھے ہیں۔ ناراض مسلم لیگیوں میں گورنر شپ اور صوبائی وزارتوں کے امیدوار شامل ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کسی ایک مسلم لیگی کو گورنر بنا دیں تو دوسرے امیدوار ناراض ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ اپنی جماعت کو مزید بحرانوں سے دوچار نہیں کر سکتے۔ ایک جانب مسلم لیگی رہنما چاہتے ہیں کہ ان کو گورنر شپ اور وزارتوں سے مالا مال کر دیا جائے تو دوسری جانب ان کی خواہش ہے کہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام کرائے جائیں۔ اس ضمن میں وہ بیک وقت وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ناراض ہیں وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ نواز شریف وزیر اعلیٰ سندھ سے مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے پر ان سے بازپُرس کیوں نہیں کرتے اوران کو احکامات کیوں نہیں دیتے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق گورنر سندھ کی تبدیلی مسلم لیگ (ن) کیلئے سودمند نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اس وقت مفاہمت بھی موجود ہے جس کے ختم ہونے کی مسلم لیگ کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور ایم کیو ایم 11 مئی کو عمران خان کی تحریک میں شامل ہو گئی تو حکومت کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔

ای پیپر-دی نیشن