پاکستان عوامی تحریک کا احتجاج اور قیاس آرائیاں
احمد کمال نظامی
آج کل گیارہ مئی کو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا متوقع احتجاج عوامی حلقوں میں بہت زیادہ زیربحث ہے۔ چند روز پہلے وزیرمملکت عابد شیرعلی نے تحریک انصاف والوں کو سیاسی مینڈک قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس مرتبہ سیاسی مینڈکوں کا یہ گروہ ملک میں کسی سیاسی برسات کا موسم شروع ہونے سے پہلے ہی باہر نکل آیا ہے۔ صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ خاں نے ایوان صنعت و تجارت میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاہر القادری تو کسی نامعلوم ایجنڈے کے تحت موجودہ حکومت کے خلاف سرگرم عمل تھے اب عمران خان بھی ا س کا حصہ بن گئے ہیں۔ گیارہ مئی کو عمران خان کی طرف سے ایک سال پہلے اسی روز ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزام میں تحریک انصاف کے احتجاج کی وجہ تو سمجھ میں آ سکتی ہے کہ گیارہ مئی 2013ء کی انتخابی مہم میں پاکستان تحریک انصاف نے اہنے لئے جگہ بنا لی ہے۔ اب شائد ’’تخت لاہور‘‘ پر قبضے کا اگلا مقابلہ بھی مسلم لیگ(ن) تحریک انصاف میں ہی ہو گا۔ تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس علاوہ صوبہ خیبر پی کے میں حکمران پارٹی کا کردار بھی ادا کر رہی ہے جبکہ اس کا یہ کردار قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے کردار کے تناظر میں یقینا رشک آفرین نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ حکمران پارٹی سے بہت سے ایشوز پر اختلاف تو یقینا کیا جا سکتا ہے لیکن حزب اختلاف میں بیٹھ کر ایسا کردار روا رکھنا درست نہیں ہے۔
علامہ طاہر القادری جو ان دنوں پاکستانی شہری سے زیادہ کینڈین شہری ہیں اور ’’شیخ الاسلام‘‘ کا منصب رکھتے ہیں، وہ اس ملک کے سیاسی نظام کو بدلنے اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے ایجنڈے پر ایک مرتبہ سال ڈیڑھ سال پہلے بھی عوامی جلسوں اور دھرنوں کا ایجنڈا لے کر قومی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے متحرک ہوئے تھے۔ یہ گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات سے چار پانچ ماہ پہلے سردیوں کا موسم تھا۔ جب انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک ایک کامیاب سیاسی ریلی کی قیادت کی تھی اور وہ اسلام آباد کی برفانی فضا میں کھلے آسمان کے نیچے ہزاروں انسانوں کو لے کر بیٹھے رہے تھے۔ اس ریلی اور اسلام آباد کے اس دھرنے میں شامل ہونے والوں کے حوالے سے سیاسی دانشوروں کی بہت واضح طور پر یہ رائے تھی کہ یہ لوگ یا تو تحریک منہاج القرآن کے مختلف تعلیمی اداروں کے ملازمین تھے یا ڈاکٹر طاہرالقادری کو ماننے والے ان کے مداح تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ان لوگوں کو اگر دسمبر جنوری کی سخت سردی میں گھروں سے نکال کر ایک احتجاجی تحریک کا حصہ بنا دیا تھا تو وہ یقینا اپنے پیروکاروں کو آسمان سے آگ برساتے دنوں میں بھی، کسی احتجاجی ریلی یا اسلام آباد کے کسی سیاسی دھرنے کا ایندھن بنا سکتے ہیں۔ علامہ طاہر القادری کا پاکستان کے نظام کو بدلنے کا ایجنڈا حقیقی معنوں میں کیا ہے کیونکہ اگر وہ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ملک میں قرآن و سنت کا نظام لانا چاہتے ہیں تو اس مقصدکے لئے انہیں پاکستان تحریک انصاف سے زیادہ ملک میں موجود دینی سیاسی جماعتوں کا تعاون مل سکتا تھا۔ لیکن یہ کام تو 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک نظام مصطفیٰ کے نتیجے میں بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری وزیراعظم میاں نوازشریف کی پہلی وزارت اعلیٰ کے دور میں اتفاق مسجد میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے اس وقت ان کا شمار میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کے بڑے مداحوں میں ہوتا تھا۔ بعد میں وہ اپنی پارٹی کی طرف سے الیکشن 2002ء میں قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہو گئے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں عمران خان بھی اپنی پارٹی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے واحد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔الیکشن 2002 ء کے بعد علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری تو قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑ کر کینیڈا چلے گئے تھے اور انہوں نے وہاں کینیڈا کی شہریت حاصل کر لی جبکہ عمران خان نے 2002ء کی قومی اسمبلی میں اپنے پانچ سال پورے کئے اور اس دوران صدر جنرل پرویزمشرف کو ملک کا صدر منتخب کئے جانے کے لئے کرائے گئے عوامی ریفرنڈم میں ان کی حمایت بھی کی ۔ اس وقت تک یہ تاثر عام تھا کہ وہ کسی چور دروازے سے ملک کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے لیکن مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں ان کے ساتھ نظر آنے کے باوجود وہ بعد میں اقتدار کے ایوانوں میں نظر نہیں آئے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویزمشرف انہیں مسلم لیگ(ق) میں شامل کر کے ملک کا وزیراعظم بنانا چاہتے تھے لیکن چوہدری شجاعت حسین نے جنرل پرویزمشرف کی اس خواہش کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اس طرح میرظفر اللہ خاں جمالی کے ملک کی وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد خود چوہدری شجاعت حسین نے چند ماہ کے لئے ملک کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا جبکہ بعد میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت عزیز کو ایک ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کرواکر انہیں ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے لیکن ان کے دل میں جنرل(ر) پرویزمشرف کے لئے ہمیشہ نرم گوشہ باقی رہا تھا۔ الیکشن 2013ء میں جس طرح انتہائی کامیابی سے عمران خان نے انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس سے لگتا تھا کہ شاید وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں باری باری ملک کا اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ ختم کر کے ملک کے وزیراعظم بن جائیں لیکن الیکشن 2013ء کے نتائج نے عمران خان کے ملک کے وزیراعظم بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ اب جبکہ میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم میں جنرل(ر) پرویزمشرف کے خلاف 3نومبر 2007ء کو ملک میں پی سی او اور ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چل رہا ہے اور بعض اندرونی اور بیرونی قوتیں جنرل(ر) پرویزمشرف کو ملک کے آئندہ انتخابات کے پسندیدہ ترین گھوڑے کے طور پر قائم رکھنا چاہتی ہیں تو گماں کیا جا رہا ہے کہ ان طاقتوں نے ایک طرف کینیڈا برانڈ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ملک میں نظام بدلنے کا نعرہ دے کر شورش برپا کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے تو دوسری طرف عمران خان کو گیارہ مئی کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اپنی عوامی مقبولیت کے مظاہرے سے قبل ازوقت ملک میں سیاسی تبدیلی کے مشن پر ان کا ساتھی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تحریک انصاف کوئی برساتی مینڈکوں کی جماعت نہیں ہے۔ عابد شیرعلی اور مسلم لیگ(ن) کو اسے سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ رانا ثناء اللہ خاں کا اندازہ البتہ درست ہے کہ گیارہ مئی کو موجودہ حکمرانوں کے خلاف بعض کردار سرگرم عمل ہیں۔