• news

گندم کے خریداری مراکز پرکسانوں کا استحصال

 راؤ شمیم اصغر
جنوبی پنجاب میں گندم کی برداشت کا سلسلہ اپنے آخری مراحل میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کسان کی جانب سے اپنی ضرورت کی گندم محفوظ کرنے کے بعد فاضل گندم فروخت کرنے کا مرحلہ جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسان کے استحصال اور قدم قدم پر اسے پریشان اور زچ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ جنوبی پنجاب کے وہ علاقے جہاں شدید ژالہ باری ہوئی  کے علاوہ تمام علاقوں میں گندم کی فصل شاندار رہی ہے۔ ان علاقوں میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 45 من یا اس سے زائد رہی ہے۔ جو زمیندار جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے  ہیں اور اپنی فصل کی سائنسی بنیادوں پر حفاظت کرتے ہیں وہاں فی ایکڑ اوسط پیداوار 55 من تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس طرح یہ ایک بمپر کراپ ہے۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قبل ازیں پنجاب نے ملتان ڈویژن سے ایک لاکھ 99 ہزار میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا تھا اب گندم کی بمپر کراپ دیکھتے ہوئے تین روز قبل اس ہدف پر نظرثانی کی گئی ہے اور نیا ہدف 2 لاکھ 27 ہزار میٹرک ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ اس طرح وفاقی حکومت کے ادارہ پاسکو نے قبل ازیں گندم کی خریداری کے ہدف میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 16 لاکھ میٹرک ٹن مقرر کر دیا ہے۔
حکومت پنجاب نے قبل ازیں صوبے بھر سے 35 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن اب بمپر کراپ دیکھتے ہوئے 40 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کاشتکار حکومتی اداروں کو گندم کی فروخت میں کوئی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کر رہا اور حکومتی ادارے پاسکو اور محکمہ خوراک کو توقعات کے مطابق گندم حاصل نہیں ہوئی۔ کسان ایک طرف سڑک کے کنارے گندم رکھ کر فروخت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں دوسری طرف گندم کو ذخیرہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عالمی و مقامی مارکیٹوں میں گندم کے نرخ زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ذخیرہ اندوزی کا بڑے پیمانے پر سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے ضلع بندی، شہروں کے داخلی و خارجی راستوں پر گندم کی نقل و حمل کو روکنے کیلئے جو بھی اقدامات کئے گئے ہیں وہ رشوت، بدعنوانی نے ناکام بنا دئیے ہیں۔ ناکوں پر رشوت کی ادائیگی کے بعد گندم کہیں بھی لے جائی جا سکتی ہے۔ اس وقت پورے جنوبی پنجاب سے دونوں حکومتی اداروں کے خریداری عمل کے دوران رشوت اور بدعنوانی کسان کے استحصال کا اتنا بڑا سلسلہ جاری ہے کہ اس خطے کے اخبارات ان کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔ سب سے پہلے باربرداری کے نرخ آسمان پر پہنچا دئیے ہیں۔ پھر خریداری مراکز پر کسان کا جو حشر ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے کسان ہر سال گندم کم کاشت کرنے کا عہد کرتا ہے پھر اس کی مجبوریاں اس سے گندم کاشت کروا دیتی ہیں۔ حکومت نے گندم میں مٹی وغیرہ کی کٹوتی کیلئے ایک پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔ جدید کاشتکاری میں گندم کی کٹائی کیلئے تھریشر استعمال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گندم میں مٹی و دیگر اشیاء کی آمیزش انتہائی کم ہو جاتی ہے لیکن محکمہ خوراک کے سنٹروں پر پانچ کلو فی من تک کٹوتی کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ پھر خریداری مراکز پر رشوت کا اتنا بڑا بازار کھلا ہوتا ہے کہ حکمران اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محکمہ خوراک کا عملہ گندم کی خریداری کے مرحلہ پر ہر سال کروڑوں نہیں اربوں روپے کی خورد بُرد کا مرتکب ہوتا ہے۔ حکومتی وسائل سے ان خریداری مراکز پر کسانوں کو اپنی باری آنے تک انتظار کے دوران ٹھنڈا پانی اور سایہ مہیا کرنے کے نام پر کروڑوں روپے مختص ہوتے ہیں جس میں سے بیشتر رقم سرکاری اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ کسانوں کو باردانہ (بوریوں) کی فراہمی کے مرحلے پر بھی رشوت اور سفارش کارفرما رہتی ہے۔ حکومت ہر سال اعلان کرتی ہے اور اپنے عملے کو پابند کرتی ہے لیکن چھوٹے کاشتکاروں کو ترجیحی بنیادوں پر باردانہ فراہم کیا جائے۔ امسال پاسکو نے کاشتکاروں کی سہولت کیلئے فی ایکڑ باردانہ8 بوریاں دینے کا اعلان کیا تھا بعد ازاں بمپر کراپ دیکھتے ہوئے فی ایکڑ 12 بوریاں دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن عملاً صورتحال مختلف رہی۔ بڑے زمیندار اور سیاستدان اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر باردانہ حاصل کر گئے لیکن چھوٹا زمیندار ہر سال کی طرح اس سال بھی منہ دیکھتا رہ گیا۔
گندم کی خریداری کے مرحلہ میں کسانوں اور کاشتکاروں کو سب سے زیادہ پریشانی اپنی فروخت شدہ جنس کی قیمت وصول کرنے پر ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر بھی رشوت اپنا کام دکھاتی ہے۔ اس سال گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گندم کی سمگلنگ کا سلسلہ روکا جائے۔ اس سلسلے میں جو ناکے لگے ہوئے ہیں ان کی نگرانی مختلف خفیہ اداروں سے کرائی جائے۔ حکومت نے میرج ہالز پر پابندیوں کیلئے تو آئی بی اور سی آئی ڈی جیسے اداروں کی ڈیوٹیاں لگائی ہوئی ہیں لیکن جنوبی پنجاب میں گندم کی خریداری کے لئے اس وقت جو سب سے بڑی بدعنوانی، رشوت اور خورد بُرد کا بازار گرم ہے اس کے لئے کوئی بندوبست نہیں کیا۔ میرج ہالز سے حکومتی اقدامات کی پابندی کرانے کیلئے جو عملہ تعینات کیا گیا ہے اسے ہی گندم کے خریداری مراکز پر تعینات کر دیا جائے تو کسانوں کی پریشانیاں کافی کم ہو سکتی ہیں۔ انہیں اپنی گندم سڑک کے کنارے رکھ کر فروخت کرنے کی بجائے باوقار انداز میں یہ مرحلہ عبور کرنے کے مواقع حاصل ہونگے اور پھر کسانوں کو گندم زیادہ کاشت کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ حکومت اگر خریداری مراکز کے عمل کو ہی شفاف بنائے تو یہ امر یقینی ہے کہ ملک کو گندم کی کمی اور باہر سے درآمد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن