خدانخواستہ پنجاب کوئی دوسرا ملک ہے؟
میں حیران بلکہ پریشان ہوں کہ سلمان رفیق جیسے آدمی نے یہ بیان کیسے دے دیا وہ برادرم خواجہ سعد رفیق کے بھائی ہیں۔ سلمان خود بھی اہل آدمی ہے۔ عزت کرنے والا اور لگن والا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پنجاب میں صحت کے معاملات درست ہو جائیں مگر بات ابھی تک کسی کے قابو میں نہیں آ رہی۔ میرے دل میں شہباز شریف کے لئے نرم گوشہ ہے۔ میں ان کی صلاحیتوں اور جنون کا قائل ہوں۔ ایک بات یہ ہے کہ انہیں نیند نہیں آتی اور میں جاگنے والوں کی بہت قدر کرتا ہوں۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
میٹرو بس بھی ٹھیک ہے موٹروے بھی ٹھیک ہے مگر ہسپتال ٹھیک کئے جائیں جہاں غریب مریض صرف اپنے مرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اسے بددعا کہنا چاہئے مگر اب ہماری دعائیں اور بددعائیں دونوں قبول نہیں ہوتیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کسی کی ہو لوگ بدحال اور بے حال ہی رہتے ہیں۔
سلمان رفیق نے کہا ہے کہ دوسرے صوبوں سے پنجاب آنے والوں کو بھی پولیو ویکسینیشن سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہو گا تو پھر کل کوئی دوسرا صوبہ کوئی اور پابندی لگا دے گا۔ کیا یہ صوبے الگ الگ ملک ہیں؟ تو پھر نواز شریف کس صوبے کے وزیراعظم ہیں۔ یہ بات غلط بلکہ نامناسب ہے۔ میں دونوں بھائیوں کو دوست رکھتا ہوں۔ پچھلے دنوں پاک فوج کے لئے خواجہ سعد کے بیانات کے حوالے سے ایک کالم کے لئے خواجہ سعد نے فون پر میرے ساتھ لمبی بات کی مجھے اس کی بات ٹھیک لگی۔ اس حوالے سے بھی بات کروں گا۔ خواجہ برادران سے میری دوستی وزیر شذیر اور مشیر وغیرہ ہونے سے پہلے کی ہے۔ جب خواجہ سعد سٹوڈنٹ لیڈر تھا۔ وہ دلیر آدمی ہے۔ مجھے پسند ہے مگر اس کی ہر بات کی تائید نہیں ہو سکتی۔
اس کے بعد بلاول نے جو بیان دیا ہے وہ تو بالکل نامناسب ہے مگر غلط نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں نے جو پابندی لگائی ہے، وہی پنجاب نے لگا دی ہے تو لگتا ہے یہ کوئی دوسرا ملک ہے۔ یہاں بھی ویزہ لینے کی پابندی ہو گی۔ یہ واقعی بہت گھمبیر بات ہے۔ کبھی بلاول بہت دلیرانہ اور دانشورانہ بات کرتا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے۔ مجھے برادرم فواد چودھری نے پیغام دیا تھا کہ بلاول آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو عرب امارات جیسی ریاستیں بنا دینا چاہتا ہے۔ میں کراچی گیا تو ایک سیاستدان کہنے لگا ’’اچھا تو تم پنجاب سے آئے ہو؟‘‘ پاکستان امارات۔ یہاں بھی امیر کبیر ہی حکومت کریں گے۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور نواز شریف سے بڑا امیر کون ہے۔ اب تو عمران خاں، چودھری پرویز الٰہی، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن وغیرہ بھی کم امیر کبیر نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کے لوگ بھی امیر کبیر ہیں۔ اس کے سربراہ کو تو کہتے ہی امیر جماعت ہیں۔ آج کل ایک وزیر امیر جماعت ہیں۔ دبئی، ابوظہبی، شارجہ، قطر وغیرہ۔ تو کیا یہاں بھی پنجاب، سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان وغیرہ ریاستیں ہوں گی خدانخواستہ؟ بھارتی ’’را‘‘ بھی بلوچستان کراچی میں یہی گل کھلا رہی ہے مگر اس کے بعد بھارت بھی ایسی ہی امارات میں تبدیل ہو گا۔ اس کی 20 ریاستوں میں تو رِٹ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد امریکہ چین کے ساتھ اپنے روابط ٹھیک کرے گا۔ وہ ابھی سے چین کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ معاشی میدان میں چین نے امریکہ کو شکست دے دی ہے۔
سلمان رفیق کے علم ہو گا کہ پولیو کا مسئلہ پاکستان میں بھارتی ’’را‘‘ نے پھیلایا ہے۔ تمام پولیو ٹیموں پر حملے ’’را‘‘ نے کرائے ہیں اور یہ بات حکومت جانتی ہے مگر کبھی ایک بھی بیان ہمارے حکمرانوں کی طرف سے بھارت کے لئے نہیں آیا۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی شکایت نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی نے حکومت میں خود منموہن سنگھ سے کی تھی مگر اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہمارے حکمران بھارت سے ڈرتے بہت ہیں۔ ایک بمبئی کیس ہوا تھا اور اب تک بھارت پاکستان کو معاف نہیں کر رہا ہے۔ اس کے سامنے صرف حافظ سعید ڈٹ کر کھڑے ہیں مگر حکمران ڈر کے مارے بولتے ہی نہیں۔ الٹا دشمن ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ واہگہ سے گندے آلو بھارت سے آئے ہیں گلے سڑے آلو کون کھائے گا یہ سب وزیر مملکت تجارت خرم دستگیر کو کھلانا چاہئیں۔ اس کے بعد اس کا نام خوش و خرم دستگیر رکھ دینا چاہئے کیونکہ نواز شریف اس سے بہت خوش ہیں کہ بھارت دوستی میں اس کا حصہ بہت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ کی جاسوسی بھی پولیو کے حوالے سے کی تھی۔ اس لئے پٹھان پولیو سے پریشان ہیں۔ امریکہ شکیل کی رہائی کے لئے دبائو ڈال رہا ہے۔ نواز شریف زیادہ دیر تک یہ دبائو برداشت نہیں کریں گے۔ وہ بھی ریمنڈ ڈیوس کی طرح اڑ جائے گا۔ ڈاکٹر عافیہ بھر بھی رہا نہیں ہو گی جبکہ وہ بے قصور ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو شرم آنی چاہئے۔ شکیل غدار ہے اور دشمنوں کا ایجنٹ ہے۔
پولیو کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس میں بیرونی طاقتیں بھارت سے مل کر پاکستان میں انتشار پیدا کر رہی ہیں۔ بیرون ملک یہ پابندی بھی بھارت نے بڑی طاقتوں سے مل کر لگوائی ہے۔ پولیو کے لئے یہ اہتمام تو کریں کہ اہلکار اور افسران جعلی پولیو قطرے نہ خریدیں۔ یہ قطرے پینے کے بعد بھی بچے پولیو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کرپشن اوپر سے نیچے کی طرف چلتی ہے۔ پوری قوم کرپٹ ہو چکی ہے۔ خاص طور پر افسران اور ملازمین۔ عوام بے چارے اذیت اور ذلت کا شکار ہیں۔
یہ تو بتائیں فواد چودھری کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے الیکشن کے دنوں میں بلاول کو سکیورٹی کے بہانے دبئی کیوں بھگا دیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ پنجاب میں انتخابی مہم چلاتا تو بہت سی نشستیں پیپلز پارٹی کو ملتیں نجانے یہ کیا مصلحت تھی۔ کیا کوئی حکومتی پارٹی کا چکر تھا۔ سندھ ہمیں دے دو، پنجاب تم لے لو۔ یہ کس کی کیسی پلاننگ ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور نواز شریف ایک ہیں۔ اس کے بعد پھر ’’زرداری کی پارٹی‘‘ کی باری ہو گی۔ زرداری کی سیاست کی گہرائی اور کامیابی کے ہم قائل ہیں مگر نواز شریف بھی کم سیاستدان نہیں ہے۔ اس نے خاص مشیر رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے ایک اصطلاح استعمال کی تھی جو بہت پسند کی گئی کہ ’’ایک لوہار کی سو سنار کی‘‘ کیا اس پر ’’صدر‘‘ زرداری غور کریں گے۔ اب بھی بلاول پاکستان میں ہے اور پارٹی والے اسے پسند کرنے لگے ہیں۔ اب پنجاب کا دورہ بلاول کے لئے پھر منسوخ ہوا ہے تو ڈر کس کو ہے؟
اب ایک بات برادرم خواجہ سعد رفیق کے لئے کہ کیا رئوف طاہر ان کا پی آر او ہے؟ 22 گریڈ کا یہ صحافی صحافیوں اور خواجہ صاحب کے درمیان کس رابطے کا کام کرتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ پیر پگارا مشرف کو ملنے گئے ہیں۔ وہ حامد میر کے پاس نہیں گئے۔ پیر پگارا کے ساتھ نواز شریف ایک الائنس کر چکے ہیں تو یہ کیا معاملہ ہے۔ خواجہ صاحب نے ٹھیک کہا کہ وہ مشرف کے خلاف ہیں۔ پاک فوج کے خلاف نہیں ہیں۔ مگر یہ غلط فہمی کیوں پیدا ہوئی اور خواجہ صاحب کو وضاحت جاری کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ سیاسی جرنیلوں کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ ہوں فوج کو سیاست اور حکومت میں نہیں آنا جاہئے مگر آئین کے مطابق ملک کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچانا تو ان کا فرض ہے۔ میری گزارش ہے کہ سیاسی جرنیل ناقابل معافی ہیں مگر یہ جو جرنیل سیاستدان ہیں ان سے معافی کون دلوائے گا۔ اس ملک کا المیہ ہے کہ جرنیلوں نے سیاستدان بننے اور سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی۔ دونوں ناکام ہوئے بدنام ہوئے۔ سیاسی (جمہوری) اور فوجی حکومتوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کا بھلا نہ ہوا۔ سیاسی آمریت اور فوجی آمریت میں کوئی فرق نہیں ہے
کیا نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں بھی میرا بھلا نہ ہوا
مارشل لا سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ گڈگورننس۔ کرپشن فری معاشرہ‘ قانون اور آئین کی عملداری‘ موروثی سیاست اور خاندانی حکومت کو ختم کیا جائے۔ فلاحی منصوبے بنائے جائیں۔ لوگوں کی بھلائی کے لئے کوئی انتظام پر سلمان رفیق پنجاب کے ہر ہسپتال کو ایک ماڈل ہسپتال بنا دیں جہاں امیروں حکومتی لوگوں اور وی آئی پیز کو مفت دوائیں ملتی ہیں۔ جبکہ عام لوگ صرف ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ حالات و معاملات کب تک چلیں گے۔ آخر نواز شریف کوئی مدت حکومت تو پوری کریں۔ ان کے لئے نرم گوشہ ہے۔ شریف برادران خاص طور پر شہباز شریف کے میرے مرشد صحافت مجید نظامی دل میں بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری کے زمانے میں کسی ادارے کے ساتھ کسی تناؤ کو بڑی خوش اسلوبی سے سلجھایا گیا اور مطمئن ہو کے پورے پانچ سال حکومت کی اب وہ کوئی خاص سیاست کر رہے ہیں۔ کیا یہ بات نواز شریف کو پتہ ہے۔ نہیں پتہ تو برادرم خواجہ سعد رفیق ہی انہیں بتا دیں۔
میں آخر میں بھی عرض کرتا ہوں کہ خواجہ صاحب کا موقف بالکل درست ہے۔ مگر بات کرنے کے لئے احتیاط اور اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کی امید کم از کم خواجہ سعد رفیق سے ضرور ہے۔ میں یہ بات ببانگ دہل کہتا ہوں کہ نواز شریف کی کابینہ میں خواجہ سعد رفیق جیسا ایک آدمی بھی نہیں ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ پرویز رشید کو سمجھائیں کہ وہ بچگانہ باتیں نہ کیا کریں۔ وہ لاڈلے لہجے میں بولتے ہیں مگر نفرت ان کے لفظوں میں بھی در آتی ہے۔