لاپتہ افراد کا درد انکے لواحقین سے پوچھیں‘ انہیں رات کو نیند کیسے آتی ہے: جسٹس جواد‘ سیکرٹری داخلہ خیبرپی کے کو نوٹس جاری
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد عثمان غنی اور عبدالرحمن سے متعلق مقدمہ نمٹا تے ہوئے قرار دیا کہ اب یہ مقدمہ لاپتہ افراد کے حوالے سے نہیں چل سکتا کیونکہ مذکورہ افراد کا سراغ مل چکا ہے وہ فیصل آباد جیل میں قید ہیں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہورہی ہے لواحقین اب ان کی رہائی کے لئے آئین و قانون میں دیئے گئے طریقہ کار کو اختیار کریں بادی النظر میں اب یہ لاپتہ افراد کا کیس نہیں رہا۔ جبکہ لاپتہ افراد مجاہد اعظم طارق اور عبدالمنان سے متعلق پولیس کی پیش کردہ رپورٹ پر عدالت نے ایس پی صدر (پنجاب لاہور) کو ہدایت کی کہ وہ حاصل موبائل ڈیٹا ریکارڈ کا جائزہ لیکر تفتیش کرتے آئندہ سماعت پر تازہ رپورٹ پیش کریں جبکہ عدالت نے لاپتہ فرد عبدالمنان کے والد بہادر خان کو ہدایت کی وہ پولیس رپورٹ سے متعلق اپنے اعتراضات بھی آئندہ سماعت سے پہلے عدالت میں جمع کروائیں، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو حکم دیا کہ وہ پولیس رپورٹ کی کاپیاں لاپتہ افراد کے لواحقین اور آمنہ جنجوعہ کو فراہم کریں جبکہ کیس کی مزید سماعت 28مئی تک ملتوی کردی گئی۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت حقائق جاننا چاہتی ہے اور کوئی جرائم میں ملوث ہے تو اس کے خلاف کیس ٹرائل ہونا چاہئے عدالت کسی کے خلاف ماورائے آئین کارروائی کی اجازت نہیں دیتی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت مداخلت کا اختیار رکھتی ہے جج ولی اللہ نہیں ہوتے کہ سب کچھ جان جائیں عدالت میں پیش کردہ رپورٹس اور فریقین کے دلائل اور پٹیشن کا جائزہ لیکر حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے اور ممکنہ حد تک قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، لاپتہ افراد کا درد کوئی ان کے لواحقین سے پوچھے ان کو راتوں کو نیند کیسے آتی ہے۔
پشاور (نوائے وقت رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں سیکرٹری داخلہ خیبرپی کے کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا اور انہیں حراستی مراکز میں موجود افراد کی پراگریس رپورٹ تین جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کس کرب سے گزر رہے ہیں، ان کی تکالیف کو سمجھیں۔ پشاور ہائی کورٹ میں 27 لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت چیف جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس اکرام اللہ نے کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل منظورخلیل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رب نواز عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کیس میں صوبائی افسران تعاون نہیں کررہے ہیں اور ان کے ذمہ دار سیکرٹری داخلہ خیبرپی کے ہوں گے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ خیبرپی کے کو شوکاز نوٹس جاری کردیا اوراسے حراستی مراکز میں موجود افراد کی پراگریس رپورٹ کے ساتھ تین جون کو عدالت میں طلب کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر فوج کارروائی کرتی ہے تو پولیس کیوں آگے آگے رہتی ہے۔ آج کے بعد فوج کی کارروائی میں پولیس حصہ نہیں لے گی۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کو انصاف نہ ملا تو وہ کس کے پاس جائیں گے۔