حکومت اپوزیشن نے ملکر صورتحال کو نہ سنبھالا تو ہم ’’زیروپوائنٹ‘‘ کو لوٹ سکتے ہیں : تجزیہ کار
لاہور (فرخ سعید خواجہ) گذشتہ برس 11 مئی کو ہونیوالے الیکشن کے انتخابی نتائج سیاسی تجزیہ کاروں کی آراء کے برعکس رہے۔ مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف سابق حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی، (ق) لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو پچھاڑ دیا بلکہ تحریک انصاف کو بھی شکست سے دوچار کیا۔ قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستوں میں سے مسلم لیگ (ن) نے 131 پر کامیابی حاصل کی۔ خواتین اور غیرمسلموں کی مخصوص نشستوں پر الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 189تک جاپہنچی۔ پیپلز پارٹی 45 نشستوں کیساتھ دوسرے، تحریک انصاف 33 نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ متحدہ قومی موومنٹ نے 24، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 13، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے 5، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے 4، 4 نشستیں حاصل کیں۔ نیشنل پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کو 2، 2 نشستیں ملیں جبکہ بعض جماعتیں ایک ایک نشست حاصل کر سکیں۔ 8 آزاد ارکان منتخب ہوئے۔ پشتونخواہ ملی پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف 5 جون 2013ء کو تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چنے گئے۔ ایک نظر چاروں صوبوں پر بھی ڈالی جائے تو صوبہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف صوبائی اسمبلی کی 124 نشستوں میں سے 45 نشستیں حاصل کر کے سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر سامنے آئی۔ دوسرے نمبر پر رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 16، 16 نشستیں حاصل کیں۔ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی 8، 8 نشستیں جیت کر تیسرے نمبر پر رہیں۔ صوبے کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی صرف 5 نشستیں جیت سکی۔ تحریک انصاف جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے آزاد ارکان اسمبلی کو ساتھ لیکر مخلوط حکومت بنائی۔ پرویز خٹک وزیراعلیٰ خیبر پی کے منتخب ہوئے۔ سردار مہتاب عباسی قائد حزب اختلاف بنے۔ سردار مہتاب 1997ء وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انہیں اب گورنر پنجاب بنایا گیا ہے۔ انکی جگہ قائد حزب اختلاف چنا جائیگا۔ سندھ اسمبلی کی 168 میں سے 92 نشستیں جیت کر پیپلز پارٹی ایک بار سندھ میں پہلے نمبر پر، 51 نشستوں کیساتھ متحدہ قومی موومنٹ دوسرے نمبر پر رہی۔ مسلم لیگ فنکشنل کے 11 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کو 6 اور تحریک انصاف کو 4 نشستیں حاصل ہوئیں۔ پیپلز پارٹی اکیلی حکومت بناسکتی تھی مگر اس نے مسلم لیگ فنکشنل کو ساتھ لیا۔ قائم علی شاہ نے ایک بار پھر سندھ کی حکومت بنائی۔ فیصل سبزواری قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) صوبائی اسمبلی کی کل 65 نشستوں میں سے 19 نشستیں حاصل کر کے سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر سامنے آئی۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی 14 نشستوں کیساتھ دوسرے اور نیشنل پارٹی 10 نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 8 اور (ق) لیگ نے 6 نشستیں حاصل کیں۔ نوازشریف نے اپنی جماعت اور بلوچستان کے سیاسی دوستوں سے مشاورت کر کے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بلوچستان بننے کا موقع دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے لگ بھگ کلین سویپ کیا۔ اس نے صوبائی اسمبلی کی 371 نشستوں میں سے 315 نشستیں حاصل کیں۔ تحریک انصاف 29 نشستیں حاصل کر کے دوسرے، پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ 8، 8 نشستیں جیت کر تیسرے نمبر پر رہیں۔ مسلم لیگ (ضیا) کو 2 اور جماعت اسلامی کو 1 نشست ملی۔ اسطرح میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ لگ بھگ ایک سال میں ہم نے سیاسی طور پر کیا پایا اور کیا کھویا؟ پچھلے پانچ سال میں حکمران پیپلز پارٹی اور اپوزیشن مسلم لیگ (ن) نے میثاق جمہوریت کا کسی حد تک پاس کیا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ انتخابات کے بعد نئی منتخب حکومت کو اختیارات منتقل ہوئے، تاہم اب لگتا ہے کہ اختیارات منتقل ہونے میں کوئی کسر رہ گئی ہے اور انکے حصول کیلئے وزیراعظم نوازشریف ایک نئی کشمکش سے دوچار ہوچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے عام انتخابات کے بعد نوازشریف کو اگلے پانچ سال تک فرید ہینڈ دینے اور الیکشن 2018ء میں مقابلہ کرنے کا اعلان کیا لیکن قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک دوسری راہ پر چل رہے ہیں۔ ماضی قریب میں جو لوگ ڈکٹیٹروں کے ساتھ رہے وہ انہیں ’’ہلاشیری‘‘ دینے میں پیش پیش ہیں۔ عمران خان بلاشبہ تماشا لگانے میں کامیاب ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ ’’گڈی‘‘ کوئی اور لوٹ کے لے جائے۔ ماضی میں ایسا لگ بھگ تین بار ہوچکا ہے۔ جہاں تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا تعلق ہے وہ اگر قابل رشک نہیں تو لگ بھگ 11 ماہ کی حکومت کے لحاظ سے بری بھی نہیں۔ مرکزی حکومت توانائی اور دہشت گردی کے بحرانوں سے نمٹنے کیلئے یکسو ہے۔ معیشت کی بہتری کیلئے انکی کوشش دکھائی دے رہی ہیں مگر سیاسی لحاظ سے حکومت کی کارکردگی پر اسلئے انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت کے ہوتے ہوئے نوازشریف کا پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو وقعت نہیں دے رہے۔ اپنی پارلیمانی پارٹی اور مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی تک کا اجلاس نہ بلانا غیرسیاسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 11 مئی کے اپوزیشن کے احتجاج کو بردباری سے برداشت کرنے کی بجائے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں جوابی مہم کیلئے اشتہارات کا سہارا لیا گیا ہے۔ جہاں تک صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا تعلق ہے۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی قابل رشک نہیں۔ وہ اپنی حلیف قومی وطن پارٹی کو چار دن اپنے ساتھ نہیں رکھ سکی، اب مخلوط حکومت سے الگ ہوگئی۔ صوبائی وزیر مشیر کابینہ سے جس انداز میں الگ کئے گئے اس سے بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا۔ سندھ کی حکومت کو لیں تو قائم علی شاہ کی حکومت کو مسائل کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم پچھلے دنوں سندھ کی مخلوط حکومت میں شامل ہوئی۔ اللہ کرے کہ حالات بہتر کرنے میں دونوں جماعتیں کامیاب ہوجائیں۔ بلوچستان حکومت کی کارکردگی بھی ’’ایوریج‘‘ ہے۔ صرف پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت توانائی کا بحران حل کرنے، صوبے میں سرمایہ کاری لانے اور ترقیاتی کاموں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھا رہی ہے۔ مبصرین کی رائے ہے کہ 11 مئی کے احتجاجی پروگراموں کو حوصلہ سے برداشت نہ کیا گیا تو حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں ملکر صورتحال کو نہ سنوار سکیں تو ہم زیرو پوائنٹ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔