حکومت، طالبان کی خاموشی مذاکرات کی سنگین تصویر پیش کرتی ہے
اسلام آباد (ابرار سعید، نیشن رپورٹ) حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں شدت پسندوں کی جانب سے حالیہ کارروائی اور فوج کی جانب سے کارروائی پر دونوں جانب سے مکمل خاموشی ان مذاکرات کی قسمت اور مستقبل کے بارے میں سنگین تصویر پیش کرتی ہے۔ طالبان کمیٹی میں شامل افراد اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے ذرائع جو ان امن مذاکرات کے بارے میں جانتے ہیں نے بتایا کہ دونوں جانب سے الزامات نے ان امن مذاکرات کو ڈیڈ لاک کی دھکیل دیا ہے۔ طالبان کمیٹی نے ڈیڈلاک کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی امن کمیٹی کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ کمیٹی نے طالبان شوریٰ کا دفاع کرتے ہوئے کہا وہ امن مذاکرات پر تیار ہیں اور اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔ طالبان کمیٹی کے ذرائع نے بتایا حکومت دوسرے مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور وہ ان سے رابطے میں نہیں ہے، اسلئے طالبان سے نئی میٹنگ کیسے ممکن ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا امن مذاکرات کے بارے میں حکومت کا رویہ نہ بدلا تو طالبان امن کمیٹی بھی پیچھے ہٹ جائیگی اور وہ اس سارے معاملے کو عوام کے پاس لے جائیگی۔ ان عوامل سے باخبر ذرائع نے بتایا دونوں جانب ڈیڈلاک اس وقت پیدا ہوا جب طالبان شوریٰ کی جانب سے سیزفائر میں توسیع نہ کی گئی اور وزیر داخلہ چودھری نثار نے طالبان کمیٹی کو واضح انداز میں بتایا کہ سیز فائر کی غیر موجودگی میں طالبان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات ممکن نہیں۔ طالبان کمیٹی میں شامل مولانا یوسف نے بتایا حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن نے چیزوں کو مشکل بنا دیا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ طالبان شوریٰ ابھی بھی امن مذاکرات شروع کرنے پر تیار ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان آخری رابطہ میجر (ر) عامر کے ذریعے ہوا اور انہوں نے حکومتی کمیٹی کے دوسرے ارکان کے ساتھ مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی جس میں کہا گیا کہ وہ طالبان پر زور دیں کہ وہ سیزفائر کا دوبارہ اعلان کریں تاکہ امن مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکیں۔