اردو زبان کی سرکاری سرپرستی کیوں ضروری ہے؟
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، یہ ہندو مسلم متحدہ قومیت کی مشترکہ میراث ہے۔ اردو خطے کی واحد رابطہ زبان ہے جو ہر قوم اور نسل جانتی اور سمجھتی ہے۔ اردو زبان نے بدھ مت اور سکھ مت کی طرح برصغیر پاک و ہند میں جنم لیا۔ یہ اسلامی اور علاقائی تہذیب و تمدن کی مشترکہ عکاس ہے اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور ہمہ گیریت کا یہ عالم ہے کہ یہ دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔اردو زبان تحریک و قیام پاکستان کی خشت اول ہے جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مسلمان اور مقامی ہندو اقوام برطانوی استعمار کا حصہ بن گئے۔ برطانیہ نے سرکاری زبان انگریزی بنادی اور مقامی سطح پر ہندی زبان کی سرپرستی شروع کردی۔اردو زبان صدیوں کی پیداوار ہے لہٰذا اس کا خاتمہ سالوں یا صدی دو صدی میں نہیں ہوسکتا۔ برطانوی سرکاری مدبرین اور ہندو قائدین نے اردو زبان کے خاتمے کیلئے مراحل وار تکنیکی طریق کار اپنایا۔ پہلا وار مسلم اور مقامی غیر مسلم آبادی کو باہم دور بلکہ دشمن بنانے کیلئے اردو زبان کو سنسکرت رسم الخط میں لکھنا شروع کردیا جس وقت سرسیداحمد خان نے برطانوی استعمار کیخلاف ہندو مسلم ہندو قومیت کی بنیاد پر مضبوط، متعم اور متحدمحاذ بناناچاہا تو ہندو قیادت نے برطانوی ایماءپر ادو رسم الخط کا جھگڑا ڈالا۔ برطانوی انگریز سرکار کی سرپرستی میں بنارس میں اردو کو ہندی زبان کا نام دیا اور سنسکرت رسم الخط کو رواج دیا نیز عام فہم اردو زبان کے الفاظ کو رفتہ رفتہ سنسکرت الفاظ سے بھردیا۔ یہ وہ تنازع ہے جس نے سرسید جیسے متحدہ قومیت کے حامی کو جداگانہ مسلم قومیت کے تحفظ کا قائد بنادیا۔ علامہ اقبال اور قائداعظم بھی متحدہ قومیت کے حامی تھے مگر ہندو قائدین اور برطانوی متعصب سرکار اور مدبرین کی مسلم کش اردو پالیسی کے باعث جدگانہ مسلم قومیت کے ترجمان بن گئے۔
زبان قوم کی جان ہے۔ یورپ کے دور تاریک Dark Ages میں یونانی اور لاطینی زبان کی اجارہ داری تھی جبکہ یورپ ایک مذہبی عیسائی اکائی تھا اور ہے۔ عام لوگ علاقائی زبان بولتے تھے اور تعلیم یافتہ اقلیت لا طینی اور یونانی زبان کی ماہر تھی۔ اس طرح عوام اور تعلیم یافتہ طبقہ جداگانہ اکائیاں تھیں برطانیہ میں شیکسپیئر نے عام فہم مقامی انگریزی زبان کو اپنی تحریروں/ڈراموں کے ذریعے رواج دیا جس کے باعث برطانیہ کا عام اور تعلیم یافتہ طبقہ یکجان ہوگیا اور برطانیہ عظیم عالمی قوت بنا۔
پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جسے علاقائی زبانوں کے علاوہ ایک قومی زبان ورثہ میں ملی ہے اگر پاکستان کے قومی و ملی ورثہ کی حفاظت کرنا ہے تو اردو زبان کی سرکاری سرپرستی ضرورت ہے۔ بابائے قوم قائداعظم نے اردو کی قومی و ملی اہمیت، افادیت اور ہم گیریت کے پس منظر میں اردو کو قومی زبان قرار دیا اور اردو زبان کے نفاذ اور رواج یعنی ترویج کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔اس وقت پاکستان اس عذاب میں مبتلا ہے کہ تعلیم یافتہ حکمران طبقہ انگریزی زبان کا پروردہ اور برطانوی انگریزی تہذیب و تمدن کا دلدادہ ہے قومی ترقی قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے میں ہے۔اردو کے علاوہ ہر زبان غیر ملکی ہے اور اسے غیر ملکی زبان کے طورپر پڑھایا جائے۔جبکہ بنیادی عربی زبان قرآ ن و سنت کی زبان کے دعوےدار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کی دینی ضرورت ہے اور اس ضرورت کی سرکاری سرپرستی اور پذیرائی بھی ضروری ہے کوئی زبان بری نہیں مگر قومی زبان کا نفاذ قومی فرض ہے۔
ہنود و یہود نے ہزاروں سال کی غلامی اور در بدری کے باوجود بھارت میں مذہبی زبان ہندی اور اسرائیل میں مذہبی زبان عبرانی کو سرکاری زبان قراردیا اور اس طرح ہندو اور عبرانی زبان کو قومی زبان کے طورپر زندہ رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔
اس طرح کی سرکاری کوشش پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتی؟ نیز پرائمری ابتدائی تعلیم قومی یکجہتی کی ضامن ہے، پرائمری تعلیم کو غیر ملکی اثرات اور مداخلت سے محفوظ رکھنا قومی اور سرکاری فریضہ ہے۔ آجکل ،نیٹ کمپیوٹر، موبائل نے اردو رسم الخط کو یکسر بدل دیا ہے اور قوم نے زبان اور رسم الخط کی تبدیلی بھیڑ بکریوں کی طرح قبول کر رکھی ہے زندہ قوم ہر لمحہ اپنا احتساب کرتی ہے اور آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے یہ ہندو مسلم متحدہ قومیت کی مشترکہ میراث ہے۔جنوبی ایشیا یعنی برصغیر پاک و ہندو میں مختلف قومیں اور بستی ہیں فی الحقیقت جنوبی ایشیا میں شامل سارک ممالک اور اقوام مذہب کی دولت مشترکہ ہے جہاں مختلف علاقائی زبانیں پائی جاتی ہیں اردو واحد زبان ہے جو خطے کی ساری اقوام جانتی اور سمجھتی ہیں دراصل یہ رابطہ کی واحد قومی زبان ہے۔