11 مئی `ہسپتالوں میں لیڈی سٹاف کی ٹرانسپورٹ کا سوال
11 مئی کے احتجاج نے بہت سے سوالات کی گرد اُڑائی۔ ان سوالات میں اکثریت کا تعلق اقتدار کی جنگ سے ہے مگر ایک بڑا سوال دکھی انسانیت سے متعلق ہے۔ عام لوگوں کے دکھ درد اور درد کا مداوا کرنیوالوں سے متعلق ہے۔ اس سوال کا جواب بڑے ہسپتالوں کی انتظامیہ، ایم ایس صاحبان بھی دے سکتے ہیں مگر اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس لئے سیکرٹری ہیلتھ اعجاز منیر اور مشیر صحت خواجہ سلمان کی توجہ بھی ضروری ہو گئی ہے۔ یہ بڑا سوال ہے کیا؟ یہ سوال 11 مئی جیسے احتجاج یا شاہراہ قائداعظم اور منیار پاکستان یا کسی بھی بڑے ہسپتال کے آس پاس کسی بڑے ہنگامے، جلسے، ریلی کی صورت میں ہسپتالوں میں ڈیوٹی پر آنے جانیوالے طبی عملے اور خاص طور پر لیڈی سٹاف، لیڈی ڈاکٹروں کے ڈیوٹی پر بحفاظت اور وقت پر آنے اور جانے کیلئے ہسپتال کی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے سے متعلق ہے۔ درست ہے کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح شاہراہ قائداعظم اور بعض دوسرے مقامات کو جلسے جلوسوں کیلئے ممنوعہ علاقہ قرار دے چکی مگر عملاً کیا ہو رہا ہے۔ کوئی مصلحت یا مجبوری، کوئی دباﺅ یا زور زبردستی اس پالیسی پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے اور لگتا ہے کہ سب کچھ ایسے ہی چلے گا۔ جمہوری دور ہے تو کبھی کسی کا استقبال، کبھی وی آئی پی روٹ، کبھی وکلا کے جلوس، شاہراہ قائداعظم، مینار پاکستان، جیل روڈ یا فیروز پور روڈ پر آئے دن کوئی نہ کوئی ہنگامہ تو ہوتا ہی رہے گا اور یہ سب کچھ ہو گا تو لاہور کے بیشتر بڑے ہسپتالوں تک مریضوں کے علاج معالجے کیلئے آنے والے ڈاکٹروں کا وقت پر پہنچنا بھی ایک سوالیہ نشان رہے گا۔ میں مرد ڈاکٹروں اور معاون سٹاف کی بات نہیں کر رہا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتے ہیں، اصل مسئلہ لیڈی ڈاکٹروں اور معاون لیڈی سٹاف کا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جو ینگ ڈاکٹروں کے مسائل کے بارے میں بہت مضطرب رہنے کی شہرت رکھتی ہے اور جس کے اراکین میں ایک بڑی تعداد لیڈی ڈاکٹروں کی ہے اس اہم مسئلہ پر بہت حد تک خاموش ہے۔ اگر ماضی کے مظاہروں یا ریلیوں کی طرح 11 مئی کی شام کو کسی کو ان لیڈی ڈاکٹروں کے دل کی بات سُننے کی فرصت ملتی جو لمبی ڈیوٹیوں سے فارغ ہو کر گھروں کو جانا چاہتی تھیں یا گھروں سے ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی پر آنا چاہتی تیں اور راستے بند تھے اور مختلف راستوں پر بھٹک رہی تھیں نہ صرف خود بھی ان کے ساتھ ان کے گھر والے بھی اپ سیٹ تھے اور دوسری طرف ہسپتال سے ڈیوٹی پر وقت پر پہنچنے کیلئے فون پر فون کئے جا رہے تھے تو ڈاکٹروں کے مسائل کو حل کرنے والے اس اہم مسئلہ کو اپنی ترجیح میں پہلے نمبر پر رکھ لیتے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ یا معاملہ ایسا نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اس کے حل کیلئے آواز دی جائے بلکہ ایسا بھی نہیں کہ سیکرٹری ہیلتھ یا مشیر صحت اس کے لئے خصوصی ڈائریکٹو جاری کریں، یہ مسئلہ تو احساس کرنے کا ہے اور تمام بڑے ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان کی سطح پر حل ہو سکتا ہے شرط یہ ہے کہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحبان کا دل بھی اپنے ہپستال کے سٹاف کیلئے اپنے بچوں کی طرح دھڑکے۔ ہر بڑے ہسپتال میں ہنگامی سروسز کیلئے درجنوں ایمبولینسیں موجود ہیں، اگر کسی ہسپتال میں صاحب کی عینک گھر رہ جانے پر ایمبولینس بھجوائی جا سکتی ہے تو 11 مئی جیسے کبھی کبھی ہنگامی حالات والے ایام میں ڈیوٹی پر آنے جانے والی خواتین سٹاف اور خصوصاً لیڈی ڈاکٹروں کیلئے بروقت ڈیوٹی کی خاطر ایمبولینس یا اسی طرح کی ٹرانسپورٹ کا اہتمام کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ جوگی جہلمی مرحوم نے کہا تھا کہ ”خیال نال موت اے، خیال نال زندگی“ بات صرف خیال کی، سوچنے ہے، ہمدردی کے جذبے سے کام لینے اور حُسنِ انتظام کی ہے۔ ہسپتالوں میں ہر سطح پر حُسنِ انتظام اور چوکسی تو اور بھی ضروری ہے ۔ کیا حکومت پنجاب کا شعبہ صحت یا ایم ایس صاحبان اس ضمن میں کوئی مستقل پالیسی بنا کر اپنا نامہ¿ اعمال بہتر بنانے کیلئے تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا سوال ہے جو 11 مئی کے احتجاج کے بعد بہت زیادہ نمایاں ہو کر ابھرا ہے اور جس کے جواب کا انتظار رہے گا۔