اشاعت دین‘ سیاست اور ڈاکٹر طاہر القادری
طاہر القادری کے نام سے پہلے میں صرف ”ڈاکٹر“ لکھوں گا۔ چونکہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شیخ الاسلام ‘ علامہ اور پروفیسر کے القابات خود ساختہ ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں کیا لیکچرار تھے۔ والد کے انتقال کی وجہ سے انہوں نے جھنگ کے قریب تبادلے کی درخواست کی جو منظور نہ ہوئی۔ اس طرح انہوں نے محکمہ تعلیم کو استعفیٰ بھیج دیا۔ گویا انہوں نے لیکچررشپ کے دوران استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسسٹنٹ پروفیسر‘ ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر فل پروفیسر کے مراحل تک نہیں پہنچے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا مقصد حیات اشاعت دین بتایا تھا۔ پھر وہ سیاست کی طرف آ گئے اور سیاست بھی ایسی جس میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں جس میں حکمرانوں کو بہت جلد ملک سے کک آﺅٹ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 11 مئی کی ریلی میں عوام کو انقلاب کی نوید سنائی گئی۔ یہ نوید وہ پہلے بھی کئی ریلیوں میں سنا چکے ہیں۔ انہوں نے وڈیو لنک کے ذریعے ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا۔ وہ پاکستان کے عوام کے دکھوں اور مسائل کی بات کرتے ہیں مگر خود پاکستانی عوام کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا سے آنے میں 13 گھنٹے لگتے ہیں وہ 13 گھنٹوں میں پاکستان کیوں‘ نہیں پہنچے۔ پاکستانی عوام کے درمیان خطاب کرتے تو ان کی باتوں کا کچھ اثر بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے غربت میں آنکھ کھولی۔ پاکستان آ کر وہ غریبوں کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی خود نوشت میں لکھا تھا کہ ” جب میرے والد ڈاکٹر فرید الدین قادری کا وصال ہوا تو میرے پاس کل پچاس روپے تھے۔ اس طرح میں نے اپنی زندگی کا آغاز صرف پچاس روپے سے کیا۔
1978ءمیں پہلی مرتبہ دل کی تکلیف ہوئی لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کسی ماہر کو دکھانے سے قاصر تھا۔ عام ڈاکٹر آتے‘ دوائیاں تجویز کرتے مگر رقم نہ ہونے کے باعث ادویہ نہ خریدی جاتیں۔ جب روز مرہ اخراجات پورے نہ ہوتے تو ایک دوست سے قرض لے لیتا جو اسے کچھ عرصے بعد لوٹاتا۔ ایمرجنسی آ جاتی تو گھرکے برتن فروخت کر دیتا۔ اس طرح گھر کاسارا پرانا فرنیچر بک گیا۔ بعض اوقات مجھے پودینے کی چٹنی سے روٹی کھانی پڑتی۔ گھر کا بجٹ مشکلات کا شکار ہوگیا۔ بچوں کے دودھ کے لئے چینی نہ بچتی اور کبھی دودھ نہ ہوتا۔ لہذا آم کے مربے کا شیرہ دودھ میٹھا کرنے کے لئے استعمال کرتے‘ کبھی بچے دودھ نہ ہونے پر رات بھر روتے رہتے۔ اس سلسلے میں بچوں کی والدہ کا کردار قابل رشک ہے۔ کہ انہوں نے میری جدوجہد کے سفر میں مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ بچوں کے لئے کپڑے ہم لنڈا بازار سے خریدتے‘ سفر تانگے یا ویگن پر ہوتا۔ بعض ایسے دن بھی آتے جب گھر میں فاقہ ہوتا۔ رہائش گاہ والی عمارت کے ملازم بھی کبھی کبھی ہم سے کھانا لیتے تھے۔ جب بھی وہ چولہا ٹھنڈا دیکھتے تو سمجھ جاتے کہ صاحب کے گھر آج فاقہ ہے‘ سو خاموشی سے چلے جاتے۔ بعض اوقات تنور سے روٹیاں لگوانے کے لئے ساٹھ پیسے بھی نہ ہوتے اور آٹا ہوتے ہوئے بھی فاقہ ہو جاتا بعض اوقات چولہے کے لئے مٹی کا تیل نہ ہوتا‘ کبھی روٹی ہوتی توسالن ندارد۔ اس صورت میں روکھی روٹی کھا لی جاتی۔ کبھی پانی اورکبھی شیرے سے روٹی کھا لیتے۔ یہ صورتحال کئی برس چلی ۔ اولڈکیمپس سے نیو کیمپس آنے جانے کا کرایہ پچاس پیسے تھا۔ بعض اوقات یونیورسٹی میں بس جانے کے لئے اتنے پیسے بھی نہ ہوتے۔
جب حسین بیٹے کی پیدائش ہوئی تو گھر میں رقم نہیں تھی۔ موقع آیا تو فیملی ہسپتال میں بیگم صاحبہ کو داخل کروا دیا۔ ہسپتال والوں سے کہا کہ تمام اخراجات جاتے ہوئے ادا کروں گا۔ اللہ نے بیٹا عطاکیا۔ جب قریبی رشتہ دار آئے۔ انہوں نے بچے کو پیسے دئیے تو کل نو سو روپے بنے۔ ہسپتال کا خرچ بھی تقریباً اتنا ہی بنا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہسپتال کے اخراجات کا انتظام فرما دیا۔ 1981ءکو سمن آباد میں جس مکان میں رہتا تھا۔ اس کا کرایہ بھی ادھار سے ادا کیا۔ جب ہم اسے چھوڑنے لگے تو تقریباً بیس ہزار روپے ادھار تھا۔ بعد کو ایک وقت ایسا آیا کہ قرض سے بڑھ کر رقم واپس لی۔ میرے پاس کبھی دوائی کے پیسے نہیں کبھی روٹی اور کبھی سالن نہیں‘ کبھی بچوں کے لئے دودھ نہیں‘ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے حضور نبی کریم کے شب و روز کو میں یاد کرتا جو فاقوں سے بھرپور ہوتے تھے۔ اس طرح اللہ کی خاص مدد و نصرت سے ہم آگے بڑھتے چلے گئے“یہ طویل اقتباس میں نے اس لئے درج کیا ہے کہ قارئین کو علم ہو سکے کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو اب ماشاءاللہ ارب پتی ہیں‘ کن مسائل اور مشکلات کے دور سے گزرے ہیں۔
ادارہ منہاج القرآن کے قیام سے انہوں نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ مئی 1989ءکو پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے ساتھ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔
پاکستان میں منہاج القرآن نیٹ ورک کے تحت ایک ہزار سے زائد تعلیمی ادارے اور لائبریریاں قائم ہیں۔کینیڈا میں بیٹھ کر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ غریبوں کو پانچ لاکھ ایکڑ مفت اراضی دیں گے جبکہ ہر ایک کو روزگار ملے گا۔ غریبوں کو مفت مکانات کھانے پینے کی اشیاءپر پچاس فیصد سبسڈی‘ پہلی سے میٹرک تک لازمی تعلیم کے ساتھ ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی دیں گے۔ اس سارے نظام کے لئے پیسے اور انتظامات مکمل ہیں۔ صرف انقلاب کا انتظار ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا انقلاب کینیڈا میں بیٹھ کر آئے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کینیڈا میں بیٹھ کر جتنی بھی ”خوشخبریاں سنائی ہیں۔ اقتدار سے قبل پاکستان میں بیٹھ کر یہی ”خوش خبریاں سناتے رہے ہیں۔عوام کب تک خوش فہمیوں کے سہارے زندہ رہیں گے ؟