• news

ایران گیس پائپ لائن منصوبہ‘ پاکستان نئے طاقتور اتحادی بلاک کی داغ بیل ڈال سکتا ہے

فیصل آباد  (تجزیاتی رپورٹ: احمد جمال نظامی) سیاسی و کاروباری حلقوں نے وزیراعظم میاں نوازشریف کے دورہ ایران کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری نے صدر مملکت کی حیثیت سے ایران کے سرحدی شہر کبڈ کے علاقے چاہ بہار میں جا کر امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے تمام تر دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کر تاریخی اہمیت کے حامل اس منصوبے کو مکمل کرنے کا چیلنج قبول کیا تھا۔ گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لئے ایک حیات بخش منصوبہ ہو سکتا ہے لیکن چونکہ امریکہ اور مغربی ممالک نے ایران پر پابندیاں لگا رکھی ہیں لہٰذا ان سب کی طرف سے پاکستان کے لئے زندگی افزا منصوبے کی بہت زیادہ مخالفت کی گئی۔ امریکہ کی طرف سے اس منصوبے کی مخالفت اس حد تک کی گئی کہ بعض دوسرے منصوبوں میں جاری امریکی امداد بھی ختم کر دی گئی۔ گیس پائپ لائن کو منصوبے کے مطابق پاکستان میں سال رواں کے آخر تک بچھانا ضروری ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی کام نہیں ہو سکا ہے جس کی ایک وجہ ملک کے کمزور اقتصادی حالات ہیں اور دوسری وجہ ماضی میں پاکستان کی امریکہ نواز خارجہ پالیسی تھی۔ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ توانائی کے متبادل ذرائع سے کام لینے کے مشورے دیئے اور ایک موقع پر یہ بھی طے ہو گیا کہ گیس وسط ایشیاء ریاستوں سے افغانستان اور پاکستان میں گیس پائپ لائن بچھا کر بھارت تک پہنچائی جائے گی اور اسی پائپ لائن سے پاکستان بھی ضرورت کے مطابق استفادہ کرے گا۔ اس منصوبے میں یہ خامی بہت حد تک واضح تھی کہ افغانستان کی حدود میں اس کو عسکری طاقتیں بار بار اکھاڑ کر پھینک سکتی تھیں۔ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبہ ہمارے لئے واقعی خط زندگی ہے جس سے نہ صرف پاکستانی عوام کی سانسوں کو بحال رکھا جا سکتا ہے بلکہ یہ منصوبہ ان کے لئے آب حیات اور نعمت غیرمتبرکہ سے ہرگز کم نہیں لیکن افسوس کہ پاکستان سے دوستی کا دعویدار امریکہ اور اس کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم رہے اور پاکستان کے اس خط زندگی پر خط تنسیخ کھینچنے پر ادھار کھائے بیٹھے رہے۔ پاکستانی عوام اس وقت توانائی کے بدترین بحران سے دوچار کا شکار ہیں اور موجودہ حکومت اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق پاکستان میں توانائی کے گذشتہ دو تین سالوں کے نہیں بلکہ دو تین دہائیوں کے بحران سے نپٹنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں سے توانائی کا بحران ان کی پارٹی کے موجودہ دورانیہ کے اختتام سے پہلے ختم ہو جائے گا۔ ایران کے موجودہ دورہ سے پہلے لگتا تھا کہ حکومت کی سب سے زیادہ توجہ ملک میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار پر لگی ہوئی ہے لیکن وزیراعظم میاں نوازشریف نے جن کے متعلق بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات خراب کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ اچانک ایران کا دورہ کر کے خطے میں کام کرنے کے لئے اتفاق رائے سے چلنے، مذہبی اور ثقافتی اقدار کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے اور دونوں ممالک کے لئے مفید اقتصادی منصوبوں پر یقینی طور پر عملدرآمد کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کے عزم کا اظہار کر کے پاکستان نے مستقبل میں اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ چند ماہ پہلے پاک ایران سرحد پر کشیدگی بھی رہ چکی ہے جس پر میاں محمد نوازشریف کے دورہ ایران پر کہا گیا ہے کہ یہ کشیدگی دشمنوں نے پیدا کی تھی جو بظاہر خود کو پاکستان کا دوست ظاہر کرتے ہیں۔ خامنہ ای نے پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن سمیت بڑے اقتصادی منصوبوں پر جتنی جلدی ممکن ہو عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اور ایران اپنے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کسی تیسرے ملک کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے، امریکہ کی خباثت سب پر عیاں ہے!۔ مشترکہ تہذیبی اور مذہبی اقدار پاکستان اور ایران کے عوام کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات کا اہم ترین سبب ہیں۔ خامنہ ای نے پاکستان میں موجود تکنیری قوتوں کو تمام مسلمانوں کے لئے سب کے لئے خطرہ قرار دیا اور کہا کہ اگر ان تکفیری قوتوں کا مقابلہ نہ کیا گیا تو وہ عالم اسلام کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔ میاں نوازشریف اگر ایران کی اعلیٰ قیادت کے اس جملے پر غور کریں کہ دونوں ممالک کو باہمی تعمیروترقی کے منصوبوں میں کسی تیسرے ملک کی طرف نہیں دیکھنا چاہتے تو وہ خود انحصاری سے پاکستان میں گیس پائپ لائن بچھانے کی رقم کا بندوبست وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے کروا سکتے ہیں اور اگر پاکستان ہنگامی بنیادوں پر گیس پائپ لائن ڈالنے کا کام شروع کر دے تو اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان کو دسمبر 2014ء تک 75کروڑ مکعب فٹ گیس اور دو ہزار میگاواٹ بجلی ملنا شروع ہو جائے گی اور اس طرح پاکستان اندھیروں سے روشنی کی طرف اپنا سفر مکمل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس منصوبے پر لاگت بھی بہت زیادہ نہیں آئے گی یعنی 7.50ارب ڈالر میں گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ صرف حکومت پنجاب اپنے کسی ایک بڑے شہر میں میٹروبس سروس منصوبہ کو ایک سال کے لئے موخر کر کے ملک کو بجلی اور گیس کی قلت سے نجات دلا سکتی ہے۔ چونکہ فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہے اور اس شہر کو میٹروبس سروس سے زیادہ توانائی بحران سے نجات پانے میں دلچسپی ہے کیونکہ توانائی کا بحران ختم ہو گا، صنعتوں کا پہیہ چلے گا تو نہ صرف شہر میں صنعتی پیداوار میں اضافہ ہونے سے فیصل آباد ملک اور قوم کے لئے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والا شہر بن جائے گا بلکہ جب صنعتی یونٹوں کا رکا ہوا پہیہ حرکت میں آئے گا تو صنعتی یونٹ سے نکالے گئے مزدوروں کو دوبارہ ان کی ملازمتوں پر بلا لئے جانے سے ان کے روزگار کو نئی حیات حاصل ہو جائے گی اور ہزاروں گھروں کے ٹھنڈے چولہوں میں ایک مرتبہ پھر زندگی کی توانائی جاگ اٹھے گی، وزیراعظم نوازشریف نے دورہ ایران سے واپس آ کر اگر امریکہ بہادر کے حوالے سے کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے تو انشاء اللہ وہ ایک نئے پاکستان کے قیام کو تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آصف علی زرداری نے گوادر بندرگاہ کا کنٹرول اور اس کی حفاظت چین کے سپرد کر کے، امریکہ کے اس خواب کو مٹی میں ملا دیا تھا جو انہوں نے بلوچستان کو الگ مملکت بنانے کی صورت میں سوچا ہوا تھا۔ اس امریکی منصوبے کے مطابق 2015ء کے بعد پاکستان کا صوبہ بلوچستان پاکستان کو نقشے میں شامل نہیں تھا، چین کے بعد ایران کو گیس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کی سلامتی اور بقا کا حصے دار بنا کر اور مستقبل میں روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر پاکستان ایک نئے طاقتور اتحادی بلاک کی داغ بیل ڈال سکتا ہے۔ امریکہ کی مسلسل دغابازیوں کے باعث اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کو اس خطے سے نکال دیا جائے۔ متذکرہ بالا سیاسی بلاک بن گیا تو امریکہ افغانستان سے بھی رخصت ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ بھارت میں رہے گا بھارت کی سلامتی اور بقا کو امریکہ کی بھارت میں موجودگی سے صرف نقصان ہی پہنچنے گا۔

ای پیپر-دی نیشن