قومی اسمبلی: تحفظ پاکستان آرڈیننس میں 120 روز توسیع کی قرارداد منظور‘ اپوزیشن کا احتجاج‘ واک آئوٹ ‘ کالا قانون نامنظور کے نعرے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان آرڈیننس 2014ء میں مزید 120 روز کی توسیع کیلئے قرارداد کی کثرت رائے سے منظوری دیدی جبکہ اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ کیا۔ کالا قانون نا منظور کے نعرے لگائے۔ جے یو آئی کے ارکان نے آرڈیننس کی مخالفت کے باوجود واک آؤٹ میں حصہ نہیں لیا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے قرارداد پیش کی کہ ’’قومی اسمبلی تحفظ پاکستان آرڈیننس 2014ء میں 22 مئی 2014ء سے مزید 120 روز کی توسیع کا فیصلہ کرتی ہے۔ تحفظ پاکستان کے اصل آرڈیننس کی توسیع ہو چکی ہیں تاہم اس میں بعض ترامیم کو موثر رکھنے کے لئے یہ قرارداد پیش کی گئی ہے۔ وزیراعظم اس بل کو ایوان بالا سے اتفاق رائے سے منظور کرانا چاہتے ہیں۔ ہم نے ایوان بالا سے تجاویز طلب کی ہیں، ایم کیو ایم، جے یو آئی سے تجاویز آ چکی ہیں، اے این پی، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں بھی چند روز میں تجاویز حکومت کو بھیج دیں گی۔ جو بل قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے اگر ارکان سمجھتے ہیں کہ بل میں ترامیم ناگزیر ہیں تو لائی جا سکتی ہیں، یہ بل انتہائی اہم اور ملک کی سکیورٹی اور تحفظ کے لئے ناگزیر ہے، یہ اتفاق رائے سے منظور ہونا چاہئے۔ جس پر اپوزیشن کے متعدد ارکان نے کھڑے ہو کر شیم شیم اور نو، نو کے نعرے لگائے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حالات نارمل نہیں ہیں۔ اس قانون کو مزید 120 روز تک توسیع نہ دی جائے، یہ قرارداد واپس لی جائے۔ رشید گوڈیل نے بھی آرڈیننس کی مخالفت کی۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ آرڈیننسوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے، وقت ضائع نہ کیا جائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے حوالے سے ہماری خواہش ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے تشکیل کردہ کمیٹی کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کر کے بل منظور کیا جائے۔ اس ایوان کی روایت رہی ہے کہ یہاں اٹھارویں اور انیسویں ترامیم سمیت متعدد بل اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ یہ آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کی آئین میں موجود شقوں سے متصادم ہے۔ جے یو آئی (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان نے کہا کہ ہم اس آرڈیننس کے مخالف ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے ابھی تک وزارتیں بھی قبول نہیں کیں، قرارداد کی بجائے کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ اس بل پر ہمارے تحفظات ہیں، ہم دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے خلاف ہیں۔ خورشید شاہ نے اعلان کیا کہ اس بل پر اپوزیشن واک آؤٹ کریگی۔ جس کے بعد پی پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور ق لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے واک آؤٹ کیا۔ بعض ارکان نے اس موقع پر ہم نہیں مانتے، ظلم کے ضابطے کے نعرے لگائے۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ یہ ترامیم نئی نہیں ہیں، اپوزیشن کو ہمارا موقف سمجھنا چاہئے۔ حکومت آئین اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم کوئی قانون منظور نہیں کرائے گی، سپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس کی ارکان نے منظوری دیدی۔ قومی اسمبلی نے گیس چوری کی روک تھام و وصولی آرڈیننس 2014 میں مزید 120 دن کی توسیع کی قرارداد بھی منظور کر لی۔ ایوان نے سٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرارداد بھی منظور کر لی۔ پٹرولیم و قدرتی وسائل کی پارلیمانی سیکرٹری شہزادی عمرزادی ٹوانہ نے قرارداد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ گیس چوری میں عملہ ملوث ہونے پر سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ ایتھنول پٹرول میں ملانے کا ابھی تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ سوئی سدرن گیس کے سرکاری اور نجی تین لاکھ 11 ہزار 831 نادہندگان ہیں۔ وقفہ سوالات کے دوران پروین مسعود بھٹی کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ امریکہ نے یو ایس ایڈ کے ذریعے ایل این جی سروس کی فراہمی، ٹرمینل آپریٹر کے انتخاب میں مشاورت کی خدمات وزارت اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے اہلکاروں کو تربیت دینے سمیت دیگر تعاون فراہم کیا ہے۔ پاکستان میں کوئلے کی مقدار کا تخمینہ 186 بلین ٹن سے زائد کا ہے، توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس شعبہ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ضمنی سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ بھارت کو ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں شامل کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ شازیہ مری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ مانسہرہ میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے، آئے روز ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قوم کی بچیوں کی عزتیں بچانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کر کے قوانین کو سخت سے سخت بنایا جائے۔ زاہد حامد نے بتایا کہ شاہراہ دستور پر سرکاری عمارتوں کو تجرباتی بنیادوں پر شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خبردار کیا کہ پارلیمنٹ کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو خدانخواستہ یہ آخری پارلیمنٹ ثابت ہو گی اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔ جمہوری حکومت کی جگہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانے کی اطلاعات گردش میں ہیں۔ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، ہزار بار سوچا جائے کسی عالمی قوت کا ہماری فوجوں کو پھنسانے کا منصوبہ ہو سکتا ہے۔ ہم خطرات کو نہیں بھانپ رہے ہیں، پاکستان خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے پاکستان کو بچانے کا وقت ہے، حالات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ملک کھو دیں گے یہ نقشہ پر نہیں رہے گا۔ امریکہ کے جدید ہتھیاروں سے لیس سات اڈے افغانستان میں قائم رہیں گے۔ امریکہ ہمیں دوست نہیں دشمن سمجھتا ہے۔ دینی، سیاسی قائدین سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام ارکان ان کے لئے قابل عزت ہیں اور انہیں موقع فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ شیخ رشید کے نکتہ اعتراض پر سپیکر نے کہا کہ تمام ارکان ان کے لئے قابل عزت ہیں اس دن مائیک بند نہیں کیا بلکہ نماز کا وقت تھا۔ قبل ازیں شیخ رشید احمد نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ انہوں نے ہمیشہ چیئر کا احترام یقینی بنایا مگر اس کے باوجود ان کا مائیک بند کر دیا گیا اور انہیں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شیخ رشید نے کہا کہ راولپنڈی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، اغوا کاروں نے ایک واردات میں مغوی کے لواحقین سے دو ارب روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ یہ دھرنوں، ریلیوں احتجاجی سیاست اور اربوں کروڑوں روپے کی سکیورٹی جلسوں پر لگوانے کا وقت نہیں ہے ایشوز کی سیاست کی جائے اب کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ ہو گا۔ خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے حوالے سے سیاسی جماعتیں حکومت کی رہنمائی کریں۔ اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھایا جائے گا دنیا میں مزاحمت کاروں سے بات چیت آسان کام نہیں ہے دنیا میں جہاں جہاں شورشیں برپا ہوئیں ان قوموں نے مذاکرات کے ذریعے راستہ بنایا اس میں دنوں ہفتوں کے بجائے وقت لگا یہ صبر آزما کام ہے۔ علاقائی صورتحال کے حوالے سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ بھارت میں نریندر کی آمد آمد ہے۔ افغانستان میں بھی عبداﷲ عبداﷲ کی آمد متوقع ہے ایسی صورتحال میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو حکمت عملی طے کرنے کے لئے اچھا ماحول ملنا چاہئے تھا۔ ہماری ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں۔ امن و امان پر بحث کے دوران شیخ رشید احمد نے انکشاف کیا کہ دہشت گردوں نے اسلام آباد کی پہاڑیوں پر نیچے اتر کر پارلیمنٹ ہائوس ا ور وزیر اعظم ہائوس تک آنے کی مشق کی ہے۔ ہمارے سکیورٹی فورسز اس طرح کی غیر روایتی صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔ طالبان کا کوئی مایوس گروپ کسی بڑی شخصیت کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ حکومت کا اصل مسئلہ فوج اور آئی ایس آئی سے پنگا لینا ہے۔ اپوزیشن نے راولپنڈی؍ اسلام آباد میٹرو بس منصوبے پر شدید تنقید اور ہنگامہ آرائی کی، منصوبے میں اتفاق فاؤنڈری کا سریا استعمال ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ڈیسک بجا کر لوہا، لوہا کی نعرہ بازی کرتے رہے جس سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا، ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن ارکان کے رویے اور نعرے بازی کو غیر پارلیمانی قرار دیتے ہوئے شیریں مزاری کو زیادہ شور شرابے پر شدید جھاڑ پلا دی، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کے الزامات کی چھان بین کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، انہوں نے کہا کہ لوہا لوہا ہوتا ہے، اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے، وہ اتفاق فائونڈری کا استعمال ہو یا سٹیل مل کا، وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے اپوزیشن کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میٹرو بس لمبی لمبی گاڑیوں والے امیروں کا نہیں پنڈی؍ اسلام آباد کے درمیان روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں غریب شہریوں کا منصوبہ ہے اور نواز شریف غریبوں کا حق سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے منصوبوں پر بھی اربوں روپے خرچ کئے جائیں۔