سانگھڑ آلودگی کیس: لوگوں کو پینے کا پانی میسر ہے نہ خوراک ، خدا کا واسطہ دیتے ہیں حکومت کچھ کرے: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت + ثناء نیوز) سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی تیل وگیس کمپنیوں کی جانب سے ضلع سانگھڑ میں ترقیاتی کام نہ کرنے سے متعلق ازخود نوٹس مقدمہ کی سماعت 19مئی تک ملتوی کر تے ہوئے اٹارنی جنرل کوہدایت کی ہے کہ وہ اس کیس میں عدالت کی معاونت کر یں اورحکومت و متعلقہ اداروں کے درمیان رابطے اور معاون کا کردار ادا کریں تاکہ فلاحی منصوبوں کو بہتر انداز میں پایہ تکمیل تک پہچایا جاسکے عدالتی فیصلہ پرعمل کرناانتظامیہ کا کام ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ترقیاتی کاموں کے لئے 600ارب روپے ہماری جیب میں پڑے ہیں مگر انہیں فلاحی امور کے لئے خرچ نہیں کیا جارہا ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور صوبوں کو کیا اللہ کا واسطہ دیا جائے کہ وہ مطلوبہ مقاصد کے لئے رقم خرچ کریں؟ یہ رقم خرچ ہونے سے صوبے کا نقشہ ہی بدل جائے گا،عدالت نے سندھ کے علاوہ باقی ایڈووکیٹ جنرلز کی عدم پیشی پر شدید برہی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا عدالتی حکم عدولی پر ان کے خلاف آئین کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے ؟ عدالتی معاملات میں کیوں سنجیدگی اختیار نہیں کی جارہی ہے۔بدھ کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آئل کمپنیوں کی جانب سے متعلقہ علاقوں کی فلاح وبہبود اورترقی کیلئے منصوبے مکمل کرناان کی ذمہ داری ہے عدالت کوبتایاگیاتھا کہ کمپنیوں کی جانب سے 600 ارب روپے کی خطیررقم آئے گی ا س رقم سے توپورے ملک کے گائوں آباد ہوسکتے ہیں ا ن کاکہناتھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں ہدایت کی تھی کہ جورقم اس ضمن میں آئے گی ا س کے بارے میں بتایاجائے کہ وہ کہاں کہاں خرچ کی جائے گی لیکن عدالت کو اس بارے نہیں بتایا گیا۔پیسہ یہاں جیب میں پڑا ہے لیکن ہم کشکول لیکر دنیا بھر میں پھر رہے ہیں۔ پیسہ موجود ہے لیکن عوام تک نہیں پہنچ رہا۔عوام کو تو غلہ مل رہا ہے نہ پانی اور نہ سڑکیں بن رہی ہیں۔کرک میں بنائے جانے والے ایک ہسپتال کی حالت زار کے بارے میں افتخار گیلانی نے جب تصاویر عدالت میں پیش کیں تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس سے بہتر تو گھوڑوں کے اصطبل ہوتے ہیں۔ ایسے ہسپتالوں میں جو جاتا ہے تو پھر ہمیشہ کے لیے چلا جاتا ہے۔عدالت کو ڈی جی پٹرولیم کنسورشیم سعید اللہ شاہ کی جانب سے بتایا گیا کہ آئل کمپنیوں سے 542 ارب روپے حاصل ہوئے ہیں۔جن میں 491 ارب رائلٹی اور 99ارب عوامی فلاح کے منصوبوں کے حوالے سے ہیں عدالت نے کہا کہ یہ رقم عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی اور فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جمع نہیں ہو گی۔ثناء نیوز کے مطابق تیل کمپنیوں کی جانب سے آلودگی پھیلائے جانے کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پیسہ پڑا ہے لیکن لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں کھانے کی اشیاء فراہم نہیں کی گئیں۔ اگر 27 دسمبر کے احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو اس کے نتائج انتظامیہ کو بھگتنا ہوں گے۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سانگھڑ ضلع کی تمام سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانچوں حکومتیں یہ کام کریں عدالت اپنا کام کرے لیکن ادارے اپنے کام نہیں کر رہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پیسہ پڑا ہے لیکن لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں کھانے کی اشیاء فراہم نہیں کی گئی۔ جسٹس خواجہ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ یہ قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے ہم پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ رقوم کی ریکوری ہو۔ لگتا ہے کہ حکومت کی ان معاملات پر کوئی توجہ نہیں۔ عدالت نے حکومت سے کہا کہ ہم آئین اور اﷲ کا واسطہ دیتے ہیں کہ کچھ کریں۔