صرف نواز شریف کیلئے اور....؟
کراچی میں امن و امان کی بگڑتی تڑپتی صورتحال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس وزیراعظم نواز شریف نے بلایا۔ اب بھی اگر کچھ نہیں ہوتا اور کچھ نہیں ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ اس میں چیف ایگزیکٹو کے ساتھ آرمی چیف بیٹھے تھے۔ وقار اور اعتبار کی ایک مثال کی طرح جو کسی نظریاتی ملک کے سپہ سالار کے لئے افتخار کا باعث ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری تھے۔ میرے خیال میں ممنون صدر ممنون حسین کو اپنے مستقبل کا سوچنا چاہئے۔ ”صدر“ زرداری کے دور حکومت میں غارت گری کی انتہا تھی اور ایم کیو ایم ان کے ساتھ شریک اقتدار تھی۔ آج بھی ہے آج بھی حالات وہی کے وہی ہیں۔ شاید ”صدر“ زرداری کے انہی تجربات سے نواز شریف فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ”صدر“ زرداری نے ہی نواز شریف کو ”باری“ دلائی مگر نواز شریف ہمیشہ باری کو بارہ دری بنا دیتے ہیں۔ بے چارہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور سب سے ”سینئر گورنر“ عشرت العباد اس کے بعد دبکے بیٹھے ہیں۔ یہاں ڈی جی آئی ایس آئی بھی تھے تو نواز شریف مخصوص میڈیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اس اجلاس میں کمی یہ ہے کہ نواز شریف مخصوص میڈیا کے کسی نمائندے کو بلا لیتے۔ حامد میر مناسب تھے۔ زخمی ہونے کے بعد جو باتیں ان کے حوالے سے کرائی گئیں جو آئی ایس آئی اور پاک فوج کے لئے اب تک ہو رہی ہیں ان کا تجربہ حامد میر کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بہت ہے۔ جو لوگ روزانہ مر رہے ہیں انہیں کون مروا رہا ہے۔ یہ بھی عامر میر اور حامد میر ہی بتا سکتے ہیں۔ یا برادرم افتخار احمد اور انصار عباسی کو پتہ ہو گا؟ میر شکیل الرحمن کے لئے تو یہ اجلاس دبئی میں بلایا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں ایم کیو ایم یعنی الطاف حسین بھائی کا نمائندہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ کراچی ان کا شہر ہے۔ یہاں ان کی تجویز یعنی مرضی کے بغیر امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔
نواز شریف کے لئے ایک دکھ کا اظہار مجھے یہ بھی کرنا ہے کہ بھارت دوستی اور بھارت سے کاروبار کرنے کے لئے جو کچھ وہ کر رہے ہیں بھارت کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب من موہن سنگھ جیسے بے بس کمزور اور سونیا گاندھی کے غلام وزیراعظم نے اپنی الوداعی پارٹی کے لئے عالمی حکمرانوں کو دعوت دی ہے مگر ہمارے حکمران نواز شریف کو بری طرح نظر انداز کیا ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ نواز شریف نے اگر محسوس بھی نہیں کیا تو میں نے محسوس کیا ہے۔ مجھے بہت شرم آئی ہے۔ میرے وزیراعظم کے ساتھ یہ ”سلوک“ میری ذاتی رسوائی ہے۔ میں اس کے خلاف احتجاج کرتا ہوں بلکہ اس کی مذمت کرتا ہوں۔ میں تو بھارتی سفارت خانے کے سامنے بھوک ہڑتال کا ارادہ رکھتا ہوں مگر نواز شریف کی وفاقی پولیس یہ کرنے نہیں دے گی۔ اندر سے چودھری نثار کے جذبات بھی میرے جیسے ہیں مگر وہ آج کل بہت اعلیٰ سیاست کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ پرویز رشید نے کوئی بچگانہ بیان نہیں دیا۔ اس کا شکریہ۔ من موہن سنگھ کے مقابلے میں ہمارے پاس راجہ پرویز اشرف ہے۔ آغاز صدارت میں ”صدر“ زرداری نے کہا تھا کہ میں سونیا گاندھی بنوں گا تو اس کا مطلب اصل میں یہی تھا۔
نواز شریف نے ایک بات اور بہت دلچسپ کی ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی میں آ کے بات کرے۔ وہ یہ بھی بتا دیں کہ کس سے بات کرے۔ نواز شریف خود تو قومی اسمبلی میں آتے ہی نہیں۔ سینٹ میں ایم کیو ایم نے قرارداد کے ذریعے نواز شریف کو پابند کر دیا ہے کہ وہ سینٹ میں کبھی کبھار آ جایا کریں قومی اسمبلی میں یہ جرات اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ نواز شریف کے خوشامدی ممبران کی اکثریت یہاں ہے۔ تو کیا عمران قومی اسمبلی میں سپیکر ایاز صادق سے بات کرے جس کے خلاف چار حلقوں میں دھاندلی کے لئے ایک حلقہ ان کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب عمران مجھے مسٹر سپیکر سر کہتے ہیں تو میرے پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ پیسہ تو ایاز صادق نے الیکشن پر بڑا لگایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اتنی بار عمران انہیں سپیکر سر کہیں گے کہ پیسے واقعی پورے ہو جائیں گے۔ جب انہیں لوگ عمران سے ہارنے کی خبریں بتاتے تھے تو بھی میں نے لکھا تھا کہ وہ جیت جائیں گے مگر ابھی میں نے یہ نہیںبتایا کہ وہ کیسے جیت جائیں گے۔ وہ ہمیشہ ممبر اسمبلی بن کے اپنے رشتہ دار نااہل ڈاکٹر اسد اسلم آئی سپیشلسٹ کے ای میڈیکل یونیورسٹی کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ سیکرٹری ہیلتھ اسماعیل قریشی نے بھی یہی کیا۔ وہ ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے۔ ایاز صادق کی طرح ذاتی طور پر میرے دل میں ان کے لئے بھی عزت ہے۔
عمران لاہور کے جن چار حلقوں کی بات کرتے ہیں اگر نواز شریف سیاستدان ہوتے تو یہ چار حلقے عمران کے حوالے کر دیتے اور کہتے کہ کسی انکوائری کے بغیر چار سیٹیں بھی آپ لے لو۔ عمران کو بھی صرف چار حلقوں کے لئے اتنا کھڑاک نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کوئی اور مقصد ہے تو صاف صاف بات کریں۔
ایک بات یہ بھی نواز شریف نے کی ہے کہ کلثوم نواز کو سیاست میں حصہ لینے سے میں نے نہیں روکا۔ میرے خیال میں وہ رکیں گی بھی نہیں۔ ابھی شاید وقت نہیں آیا۔ انہوں نے پہلے تحریک ”جمہوریت“ چلا کے اپنے آپ کو سیاستدان ثابت کر دیا تھا۔ یہ وہی جمہوریت ہے جو آج کل چل رہی ہے؟
تب حکمران چودھری پرویز الٰہی اور حکومتی جماعت کے سربراہ چودھری شجاعت نے بھی ان کا راستہ نہیں روکا تھا۔ یہ اعتراف بھی کلثوم نواز کے لئے تھا اور حکومتی سطح پر سیاسی بڑائی بھی۔ شاید انہیں پتہ تھا کہ یہ تحریک جمہوریت تحریک جلاوطنی بن جائے گی جمہوریت اور جلاوطنی دونوں ج سے شروع ہوتے ہیں۔ جج، جرنیل اور جرنلسٹ بھی ج سے شروع ہوتے ہیں۔ اب کلثوم نواز نے اپنی بہت اہل اور اچھی بیٹی مریم نواز کو سیاست میں اتارا ہے۔ میں خاندانی جمہوریت کے حق میں نہیں ہوں مگر موروثیت اگر روحانی دنیا میں ہے تو دنیاوی سیاست میں کیوں نہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی بڑی بڑی گدیوں کے سجادہ نشین ہو سکتے ہیں تو بینظیر بھٹو ذوالفقار بھٹو کے بعد وزیراعظم کیوں نہ ہوتی۔ مریم نواز بھی نواز شریف کے بہت قریب ہے۔ وہ انہیں والد کے علاوہ اپنا لیڈر بھی کہتی ہے۔ حمزہ شہباز شریف کی فوٹو سٹیٹ ہے۔ بلاول بینظیر بھٹو کو رہنما بنائے تو نام پیدا کر سکتا ہے مگر اب سب کچھ ”صدر“ زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ نجانے مونس الٰہی کو چودھری پرویز الٰہی نے بیرون ملک کیوں چھپا کے رکھا ہوا ہے۔ سنا ہے عمران خان کے بیٹے بھی پاکستان آ کے تحریک انصاف کی قیادت سنبھالیں گے بس انہیں عمران کے وزیراعظم بننے کا انتظار ہے۔اسی لیے اپنے نانا جان کے پاس تیار ہو رہے ہیں۔