• news

’’کان حادثے پر حکومت مستعفی ہو‘‘ ترکی کے 13 شہروں میں ہڑتال اور مظاہرے

انقرہ(آن لائن+ بی بی سی) ترکی میں حادثے کا شکار ہونے والی کوئلے کی کان سے امدادی کارکنوں نے مزید آٹھ لاشیں نکال لی گئی ہیں ۔ مرنے والوں کی تعداد 290  سے بڑھ گئی ہے۔وزیر توانائی تانیریلدیز نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ کان میں پھنسے 150 مزدوروں  کے زندہ بچنے کی امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں کہیں کہیں آگ بھڑک رہی ہے جس سے امدادی کارروائیاں متاثر ہورہی ہیں۔ چار بڑی مزدور یونینز نے اس حادثے میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف جمعرات کو ایک روزہ ملک گیر ہڑتال اور 13 شہروں میں مظاہرے کئے۔امریکہ نے بھی ترکی سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے امدادی سرگرمیوں میں معاونت کی پیشکش کی ہے۔مزدور یونینوں کے ارکان کا کہنا ہے کہ کان کنی کے شعبے میں حالیہ نجکاری نے حالاتِ کار کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ترکی میںصدر عبداللہ گل نے بھی سوما میں واقع جائے حادثہ کا دورہ کیا ہے جہاں انھیں مشتعل مظاہرین کی نعرے بازی کا سامنا کرنا پڑا۔بی بی سی کی ترک سروس کے مطابق ہڑتال کے موقع پر تین ہزار کے قریب مظاہرین دارالحکومت انقرہ میں جمع ہوئے ہیں جبکہ ملک کے 13 دیگر شہروں میں بھی اسی قسم کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔اس ہڑتال میں کئی یونینیں حصہ لے رہی ہیں اور مظاہرین سے کہا گیا ہے کہ وہ سیاہ لباس پہنیں اور وزارتِ محنت کے دفتر کی جانب مارچ کریں۔پبلک ورکرز یونینز کنفیڈریشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وہ جو نجکاری کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں، جو اخراجات میں کمی کے لیے کارکنوں کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں، وہ سوما کے قتلِ عام کے ذمہ دار ہیں اور ان سے اس کا حساب لیا جانا چاہیے۔‘اس واقعے کے خلاف بدھ کو بھی ترک دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں احتجاج ہوا تھا جس دوران مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔"وہ جو نجکاری کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں، جو اخراجات میں کمی کے لیے کارکنوں کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں، وہ سوما کے قتلِ عام کے ذمہ دار ہیں اور ان سے اس کا حساب لیا جانا چاہیے۔" اس واقعے کے خلاف بدھ کو بھ ترک دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں احتجاج ہا تھا جس دوران مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔مظاہرین ملک میں کان کنی کے بدترین حادثے پر حکومت سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔مقامی میڈیا کے مطابق سوما میں بھی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی ہے اور چند مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی وزیراعظم کے اس بیان پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے سوما کے دورے کے موقعے پر ملک میں کان کنی کے حادثات کا دفاع کرتے ہوئے برطانیہ میں 19ویں صدی میں کان کے حادثے سمیت متعدد حادثات کا ذکر کیا۔

ای پیپر-دی نیشن