راوی ہر سو چین لکھتا ہے
ہم بڑی بڑی مصیبتوں سے ابھی تک محفوظ ہیں۔ہمارے ہاں بوکو حرام تنظیم وجود میںنہیں آئی جو ایک ہلے میں تین سو طالبات کو جنگل میں گھسیٹ لے جاتی ہے، ان میں سے کچھ وبائی امراض سے چل بستی ہیں، کچھ زہریلے سانپوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، باقی بوکو حرام کے حرم کا حصہ بن جاتی ہیں۔بوکو حرام تنظیم نائیجیریا میںمصروف عمل ہے اور یہ ملک ہم سے اس قدر دور ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان تک پہنچنے میں ایک صدی تو لگ سکتی ہے، تب تک ہماری بیٹیاں ان کی دست برد سے محفوظ ہیں۔
ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمیں ایک تجربہ کار وزیر اعظم میسر ہیں۔وہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بناتے ہیں، ان کے لئے سرمایہ کار ڈھونڈنے کے لئے ملکوںملکوں چکر کاٹتے ہیں، ان سے پہلے کسی وزیر اعظم نے ایک سال میں چودہ غیر ملکی دورے نہیںکئے لیکن یہ ان کی ان تھک محنت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پندرہ ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں اور ڈالر کی قیمت گر کر سو سے نیچے آ گئی ہے۔
دنیا کا کوئی وزیر اعظم اقتدار کا گھنٹہ گھر نہیں ہے لیکن ہمارے وزیرا عظم کو ملک کا درد ہے، وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فاٹا میں مذاکرات کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور کراچی میں قیام امن کے لئے ٹارگٹ آپریشن کا حکم دے رہے ہیں۔بلوچستان میں پانی سر سے گزرے گا تو وزیر اعظم بھی متحرک ہو جائیں گے۔ پولیو کی وجہ سے پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہوا تو جھٹ وزیر اعظم نے سر گرمی دکھائی اور فوج کو حکم دیا کہ وہ اپنی نگرانی میں پولیو کے قطرے پلائے۔وزیر اعظم فوج کا دل جیتنے کے ہنر سے آشنا ہیں، کراچی میں انہوںنے فوجی سربراہ جنرل راحیل کو زرداری کے ساتھ بٹھایا اور انکی زبان سے کہلوایا کہ فوج سو فیصد حکومت کے ساتھ ہے۔فوج کو ایک میڈیا گروپ سے گلہ ہے، وزیر اعظم نے مظلوم فریق کا ساتھ دیا، خود بھی زخمی کی عیادت کی اور پیمرا کے ذریعے بھی مظلوم کو انصاف دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی خوش قستی کی علامت ہے کہ پاکستان ابھی اسپین نہیںبنا جہاں پانچ سو سال تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ اس امر کی تحقیق کے لئے بھارت نے ڈی پی دھر کمیشن بنایا جس نے پتہ چلایا کہ اسپین کے مسلمانوں کو بے غیرت، بے حس بنانے کے لئے کیا کیا جتن کئے گئے اور کیا کیا ترکیبیں لڑائی گئیں۔پاکستان میں یہ کوشش ہو تو رہی ہے لیکن ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔فوج اور آئی ایس آئی کے ایشو پر قوم نے راتوں رات غیرت کا مظاہرہ کیا اور بازی پلٹ دی، اب ناموس رسالت ﷺ اور اہل بیت کی حرمت کا ایشو کھڑ اہو ا ہے تو بھی سواد اعظم کا ضمیر جاگ اٹھا ہے۔امن کی آشا کے ایجنڈے کو بھی فی الحال قوم نے مسترد کر دیا ہے۔یو ٹیوب پر گستاخ فلم پیش کی گئی تو پاکستان کی عدلیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی، اگرچہ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی ہے کہ یہ پابندی ہٹائی جائے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ قومی اسمبلی نے تو ڈرون مار گرانے کی کئی قراردادیں منظور کیں مگر ان پر عمل نہیںہوا۔ایک زمانے میں گستاخانہ خاکے بنے توبھی پاکستانی عوام سراپا احتجاج بن گئے تھے۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ حمیت نام تھا جس کا ابھی تیمور کے گھر میںموجود ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی بھی بڑی حد تک ہمارے کنٹرول میں ہے ، ہم سعودی عرب کے بھرے میں آ کر شام کے پنگے میںنہیں پڑے ، ویسے ہمارا انتہائی گہرا اور قریبی دوست ترکی باقاعدہ شام کے بحران کا حصہ ہے اور اس کی فضائیہ اور اس کے ٹینک شام کی سرکاری فورس کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی خود بھی نشانہ بن جاتے ہیں ،لیکن ہم نے شام کی خانہ جنگی سے اپنا دامن بچا رکھا ہے۔اس کے باوجود ہمارا نعرہ یہی ہے کہ مسلم ہیں ہم ،وطن ہے سارا جہاں ہمارا اور ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام بھی یہ کہہ کر آگے بڑھایا تھا کہ یہ پوری امت مسلمہ کی حفاظت کرے گا۔ ہم یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ہم عالم اسلام کا قلعہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی ہم خود اس قلعے میںمحصور ہو کر رہ گئے ہیں۔شاید اسی میںہماری عافیت ہے۔
ایران کے ساتھ ہماری سرحد ملتی ہے، مذہبی، ثقافتی اور تجارتی رشتے بھی ہمیں ایک دوسرے کے قریب رکھتے ہیں، پینسٹھ کی جنگ میں ایران نے ہمیںاپنے فضائی ا ڈے پیش کر دیئے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایران پر ایک شہنشاہ کی حکومت تھی اور پاکستان میں مارشل لا مسلط تھا ، اب ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہو چکا اور پاکستان نے جمہوریت کو گلے لگا لیا ہے ، اس لئے کچھ مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے، ایرانی گارڈز ہمارے علاقے سے پکڑے جائیں یا اپنے ہی علاقے سے، الزام ہمی پر آتا ہے، ایران ہمیں دھمکاتا بھی ہے کہ وہ اپنے گارڈز کو چھڑوانے کے لئے سرجیکل اسٹرائیک کرے گا، مگر ایسی نوبت ابھی تک آئی نہیں، ایرانی گارڈز نامعلوم مقام سے رہائی پا کر اپنے گھر پہنچ گئے اور ایران اورپاکستان میں جھڑپ کروانے والے منہ دیکھتے رہ گئے۔ایران سے دوستی پکی رکھنے کے لئے ہم نے اس سے گیس خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے اورامریکی مخالفت کے باوجود ابھی تک ہم اس معاہدے پر قائم ہیں۔گیس کی قلت کا عالم یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں اسلام آباد کے بعض سیکٹر گیس سے محروم ہیں۔جمعرات کو میرے علاقے سے گیس غائب ہو گئی اور کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہمیں ایک دن کے لئے ہجرت کرنا پڑی۔لاہور کی سڑکیں سی این جی لینے والی گاڑیوں کی قطاروں سے اٹی رہتی ہیںمگر ملک پھر بھی چل رہا ہے اور عمران اور قادری کا حال اس مصرعے جیسا ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔
افغانستان کے لئے ہم نے ہمیشہ قربانیاں دیں، جواب میں ہمیں ٹھینگا دکھایا گیا۔ اب تو جناب عبداللہ عبداللہ تخت نشین ہونے والے ہیں، جب تک حامد کرزئی بر سر اقتدار رہے، ہمیں صلواتیں سناتے رہے، عبداللہ عبداللہ تو شمالی اتحاد کا بندہ ہے جوپاکستان سے مسقل عناد کا مظاہرہ کرتا رہا ہے، دوسری طرف بھارت میں بی جے پی کا طوطی بول رہا ہے ا ورنئے الیکشن میں مسلمانوں کا خون پینے والا ڈریکولانریندرا موڈی وزیر اعظم بننے جا رہا ہے۔ہمیں خوشی یہ ہے کہ بی جے پی کے واجپائی کشاں کشاں پاکستان آئے تھے، تو موڈی صاحب ان کے نقش قدم پر کیوںنہیں چلیں گے۔ان کی سوچ میںکوئی کجی ہوئی تو ہمارے وزیر اعظم کے دل میں موجزن محبت کا سمندر ان کو اپنی آغوش میںلے لے گا۔ملک کے لئے ستے خیراں ہی خیراں !
ہم امریکہ کی طرح جنگوںمیں نہیں الجھے ہوئے۔نہ کوئی ویت نام، نہ عراق، نہ افغانستان، نہ روس سے سرد جنگ۔بھارت کے مقابلے میں ہمارے ہاں اندرونی شورش بھی نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی کئی ریاستوںمیںمسلح بغاوت کا عالم ہے۔ہمیں تو مٹھی بھر دہشت گردوں کا سامنا ہے اور وزیر اعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد اسے خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں، ہمیںان کی کامیابی کے لئے بس دعا کرتے رہنا چاہئے۔