ہاسٹلز پر چھاپے، شہبازشریف نے تحقیقات کا یقین دلایا ہے: عبدالمالک بلوچ
کوئٹہ (بیورو رپورٹ+ این این آئی) وزیراعلیٰ بلو چستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ پنجاب کے مختلف سکولوں، یونیورسٹیز اورکالجز میں بلوچستان کے زیرتعلیم بچوں کے ہاسٹلز پر جو چھاپے مارے گئے ہیں اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب سے بات کی ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تحقیقات کرینگے اور جو بھی رپورٹ ہوگی اس بارے میں فوری طورپر حکومت بلوچستان کو آگاہ کرینگے۔ اگر غیرقانونی طور پر بلوچستان کے بچوں کو تنگ کیا گیا ہے تواسکی تحقیقات کی جائیگی اور ذمہ داروں کو سزا دی جائیگی۔ انہوں نے یہ بات ہفتہ کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی رکن اسمبلی معصومہ حیات کی تحریک التوا پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہی۔ معصومہ حیات نے اپنی تحریک التوا میں کہا تھا کہ بلوچستان کے بچے پنجاب کے کالجز، یونیورسٹیز اور سکولوں میں زیر تعلیم ہیں مگر وہاں کی پولیس نے انکے ہاسٹلز پرچھاپے مارے ہیں اور انہیں تنگ کیا جارہا ہے اسلئے فوری طور پر اسمبلی کی کارروائی روک کر اس پر بحث کی جائے۔ سپیکر پینل کی رکن یاسمین لہڑی نے جو اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں، وزیراعلیٰ بلوچستان کی یقین دہانی پر تحریک التوا کو نمٹانے کی رولنگ دیدی۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ اس وقت رکھنی اغوا برائے تاوان کا گڑھ بن چکا ہے۔ پنجاب کے اخبارات میں اشتہارات دئیے جاتے ہیں کہ بلوچستان میں ملازمتیں حاصل کی جائیں جب پنجاب سے کوئی نوجوان ملازمت کیلئے آتا ہے تو اسے اغوا کرلیا جاتا ہے اور اسکے اہل خانہ سے لاکھوں روپے طلب کئے جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے یقین دلایا کہ اغوا برائے تاوان میں ملوث افراد کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ حکومتی و اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا کہ حالیہ بارشوں اور ژالہ باری سے جو نقصانات ہوئے ہیں متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بارشوں اور ژالہ باری سے ہونیوالے نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی۔ کمیٹی 22 مئی کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کریگی۔ ایوان میں تین قوانین کے مسودے بھی پیش کئے گئے۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے پنجگور اور دیگر علاقوں میں پرائیویٹ سکولوں کیخلاف نامعلوم افراد کی جانب سے پمفلٹ تقسیم کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس میں ملوث افراد کو گرفتارکرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور کسی نام نہاد تنظیم کے دباؤ میں آکر اپنی بچیوں کو سکول جانے سے نہیں روکیں گے۔ اب وہ دور گیا کہ وہ زبردستی اپنے فیصلے مسلط کرتے تھے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ ہم مذہب کے نام پر کسی کو یرغمال بنا لیں گے تو حکومت انکے خلاف بھرپور کارروائی کریگی۔