• news

مفت ظہرانے کی سہولت دستیاب نہیں!

کیادنیا میں اس وقت کوئی ایسا ملک ہے کہ جس میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں پانچ ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار اورچالیس ہزار سے زیادہ عام شہری جاں بحق ہوچکے ہوں؟ کیا ایسا کوئی ملک ہے جہاں سچ بیان کرنے کی پاداش میں سینکڑوں صحافی زندگی اور موت کی کشمکش سے ہمیشہ کیلئے رہائی پاگئے ہوں؟ کیا دنیا میںایسا کوئی دوسرا ملک ہے جہاں گزشتہ تین دہائیوں میں ہزاروں علماءدانشور، اہل قلم حضرات اور سیاسی ورکروں کا اِنتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا ہو؟کیا دنیا میں کوئی ایسا دوسرا ملک دکھائی دیتا ہے جس کی معیشت کوگزشتہ تین دہائیوں میں بلواسطہ اور بلاواسطہ دو سو ارب ڈالرسے زیادہ کا نقصان پہنچایا گیا ہو؟ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہوگا کہ وہ ملک کو ئی دوسرا ہے یا نہیں لیکن کم از کم پاکستان ضرور ہے۔ دنیا پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی نظیر پیش نہیں کرسکتی ہے اور یقینا نہیں کرسکتی۔اس ڈیڑھ دہائی کے علاوہ بھی پاکستان میں کئی ادوار چینلجز اور مسائل سے بھرپور گزرچکے ہیں، جن میں سے 1948ئ، 1965ئ، 1970ئ، 1977ئ، اور 1999ءکے سال بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ 1977ءکا سال سیاسی جبکہ باقی سال عسکری اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیںلیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیا، کوئی نام نہاد دوست بھی کام نہ آیا۔ مثال کے طور پر 1948ءمیں اس وقت جب بھارت نے نہتے کشمیریوں پر آگ اور بارود کی بارش برساتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کو غلام بنالیا تو کوئی ملک پاکستان کی مدد کو نہ آیا۔ 1965ءمیں ایک بھارتی جرنیل نے ستمبر کے پہلے ہفتے میں صبح کا ناشتہ لاہور جم خانہ میں کرنے کا خواب دیکھا۔ اگرچہ یہ خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوا لیکن پاکستانیوں کے عظیم جذبہ حب الوطنی کے باعث بھارتی جرنیل خود اپنی قوم کے سامنے ضرور شرمندہ ہوگیا۔1970ءمیں تو ساتواں بحری بیڑا تکتے تکتے پاکستانیوں کی آنکھیں ہی پتھرا کر رھ گئی تھیں، لیکن ساتویں بحری بیڑے کو نہ آنا تھا اور نہ ہی وہ آیا۔
ستر کی ہی دہائی میں ”برفانی ریچھ“نے گرم پانیوں پر قبضے کیلئے جنوب کا رُخ کیا تو اس کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان کو ”مونگ پھلی“ پیش کردی گئی۔ تو یہ تھا وہ عالمی بھائی چارہ، جس کا ڈھندورا پیٹا جاتا تھا کہ دوست مشکل میں پڑے تو اسے ”مونگ پھلی“ پیش کردو لیکن جب مغرب کو ہوش آیا کہ برفانی ریچھ تو دنیا پر قبضے کیلئے” ابھی نہیں یا کبھی نہیں“ کی پوزیشن سنبھال چکا ہے تو تب کہیں جاکر دنیا اس کا راستہ روکنے کیلئے افغانوں کی حمایت میں اُٹھ کھڑی ہوئی۔ روس کی شکست کے بعد اتحادی اگر افغانیوں کو آپس میں لڑتا جھگڑتا چھوڑ کر چلے گئے تھے، تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اتحادیوں سے کوئی غلطی ہوگئی تھی، بلکہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے مغرب نے اس وقت یہی بہتر اور مناسب سمجھا تھا کہ اس وقت وہ افغانستان کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا جائے اور اس وقت لوٹے جب لوہا گرم ہو اور ایک ہی چوٹ میں اس کی مرضی اور منشا کے مطابق یہ خطہ موم بن جائے کہ جسے وہ جس قالب میں ڈھالنا چاہے ، یہ اُسی میں ڈھل جائے۔اب دیکھ لیجیے کہ گذشتہ پچیس برسوں میں بالعموم یہ خطہ کس طرح مغرب کی مرضی کے مطابق ڈھلا ہے اور اس خطے میں امن ایک خواب بن کر رہ چکا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان اپنے قیام سے علاقائی اور عالمی طاقتوں کی سرد جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔مختلف جنگی حکمت عملیوںکے تحت کبھی اس ملک میں لسانی فسادات سے انسانی جانیں ضائع کی گئیں تو کبھی فرقہ ورانہ کشیدگی نے ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔کبھی شدت پسندوں نے اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کیلئے کشت و خوں کا محاذ گرم کیے رکھا تو کبھی علیحدگی پسندوں نے دھماکوں میں معصوم انسانوں کو اڑاکر اپنی وحشت کو ثبوت دیا۔ کبھی ٹارگٹ کلنگ سے انسانی ہلاکتیں واقع ہوئیں تو کبھی بوری بند لاشوں سے اہل سیاست کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔کبھی ڈرون حملوں نے بچوں کو مارا تو کبھی میزائل حملوں نے خواتین کے پرخچے اڑاکر رکھ دیے۔کبھی ہلاکتےں بم دھماکوں سے ہوئیں تو کبھی خودکش حملے ہزاروں قیمتی انسانی جانیں چاٹ گئے۔کبھی توپوں کے دھانے سرحدوں پر کھُلے تو کبھی ملک کے اندر ہی محاذ سجا رہا۔
قارئین محترم! پاکستان جو بیسویں صدی میں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے بھائی چارے کے عظیم جذبے اور مظاہرے کی صورت میں متشکل ہوا تھا،دراصل اِس کے باسیوں نے دنیا کے سامنے ہر دور میں خلوص کا مظاہرہ کرکے یہی سمجھ لیا تھا کہ دنیا بھی اُن کے ساتھ جواب میں ویسا ہی سلوک کرے گی۔ یہ یقینا ایک خوش فہمی تھی اور ہر نازک مرحلے پر پاکستانی اسی دھوکے میں مار ے گئے کہ دنیا میں انسانی سطح پر بھی کوئی بھائی چارہ یا اور مذہبی سطح بھی کوئی امہ موجود ہے۔پاکستان کواپنے نازک ترین ادوار میں دوست ممالک کی عسکری، سیاسی اور اخلاقی حمایت کی سخت ضرورت رہی ، لیکن ان تمام مواقع پر پاکستان کو یا تو ”مونگ پھلی“ جیسی رسوائی ملی یا پھر صفِ اول کے اتحادی کی صورت میں تنہائی کے سوا کچھ نہ ملا لیکن اس میں ہمارا اپنا بھی بہت قصور ہے۔ہم ایک عرصہ تک عالمی بھائی چارہ اور دوستیاں ڈھونڈتے رہے، لیکن ہمیں کہیں بھی اِن کا سراغ نہ ملا۔ پاکستانی قیادت یہ نہ سمجھ سکی کہ ممالک کی سطح پر بھائی چارے یا دوستیاں نہیںہوتیں بلکہ صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں ۔ تعلقات قائم کرتے ہوئے دنیا بھائی چارے اور دوستی کو ایک اضافی خوبی کے طور پر تولیتی ہے، لیکن اصل اور اولین ترجیح ذاتی مفادات کو ہی دی جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اب بھی وہی پرانی روش اختیار کیے ہوئے ہیں ،ہم بھارت سے لے کر امریکہ تک اور سعودی عرب سے لے کر ایران تک کہیں عالمی بھائی چارہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور کہیں ہماری نظریں امہ کو تلاش کرنے لگتی ہیں اور مسلسل مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ مسائل کی اس دلدل سے ہم صرف اُسی صورت نکل سکتے ہیں اگر ہم صرف اتنی سی بات سمجھ لیں کہ دنیا میں کہیں بھی ”مفت ظہرانے“ کی سہولت دستیاب نہیں۔مفت دسترخوان بچھانے والے کو بھی اگر ثواب کی غرض نہ ہو تو وہ کسی کو ایک نوالہ بھی نہ کھلائے!
]

نازیہ مصطفٰی

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر-دی نیشن