مسائل کا حل سڑکوں پر ۔پھر اسمبلیوں کا جواز؟؟
اس وقت دنیا کی سکرین پر پاکستان کی تصویر متشدد۔ رویوں کا حامل ۔ معاشی و سیاسی افراتفری میں مبتلا ملک کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ عوام کی ضروریات کی تکمیل اور قومی امور بابت پالیسیاں تشکیل دینے اور شہریوں کو اچھے معیار کی زندگی گزارنے کیلئے قانون سازی کا بہترین فورم۔ عوام کی منتخب کردہ پارلیمان ہوتی ہے۔ مسائل کے حل کا صحیح فورم۔ملکی مسائل سے ’’ووٹرز‘‘ کے مفادات کی نگہبانی تک مقدس فریضہ۔ امانت کے طور پر عوامی نمائندوں کے سپرد ہوتا ہے۔ ۔ مگر اس وقت صورتحال بڑی تشویشناک اور مضحکہ خیز ہو رہی ہے۔۔عوام ۔آبادی کے مختلف طبقات سے لیکر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہمنا تک مختلف ایشوز پر ’’منتخب فورم‘‘ کی بجائے سڑکوں ۔ چوراہوں کو اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی نمائندگی کرنے والے عوام کی دسترس سے باہر… قوم پہلے سے بھی زیادہ پریشان۔جمہوریت کا راگ الانپے والے بھی اسمبلیوں میں بیٹھ کر حل نکالنے سے انکاری۔۔جب عوام اور سیاستدانوں نے ہر معاملہ سڑکوں پر ہی اُچھالنا اور عوام نے بُرے نتائج بُھگتنے ہیں تو پھر سیاسی گروہ بھی کہی اپنا جواز تو نہیں کھو چُکے ؟ ہماری منتخب سیاسی و عسکری تاریخ بڑی عجیب گنجلگ رہی۔ ہر حکومت ہمیشہ اِس پوزیشن میں رہی کہ بحران کو حل کر سکنے کی استعداد ۔ طاقت ۔ صلاحیت رکھتے ہوئے بھی جبکہ سیدھے سبھائو’’مکھن سے بال‘‘باہر نکال سکتی تھی۔ پھر بھی نجانے کیوں گریزپائی غالب آنے دی گئی۔اِس عُذر کو پورے جماعتی منشور۔ پروگرام پر فوقیت دی جاتی رہی کہ کام نہیں کرنے دیا جارہا۔۔بے بنیاد ۔۔خود ساختہ سازشوں ۔۔ اوبام۔۔’’انتظامی تنازعات‘‘ کو ’’کتاب کا دیباچہ بنا ڈالا۔۔ہم کو اگر کسی عادت نے زیادہ نقصان سے دوچار کیا ہے تو وہ ہے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی ہوس۔۔ادارہ جاتی چپلقش اور اپوزیشن کی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی تکرار۔ ہر مرتبہ جمہوریت کا بستر گول کرنے میں معاون بنی۔۔ آمریت کے تباہ کن نتائج ۔اثرات کے باوجود اس وقت بھی کوئی دانش اختیار کرنے اوردرست سمت کا انتخاب کرنے میں ہنوز ناکام ہے۔۔زیادہ ایمانداری ۔سچ سے کام لیں تو بالا دستی کی جنگ نے آج ہمیں نہ صرف ’’ماحولیات‘‘ کے حوالے سے ’’بد ترین ممالک‘‘ کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ بلکہ معیاری کام کرنے کی اہلیت کو بھی معطل کر کے چھوڑا ہے۔۔دُنیا ہمارا مقام تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔۔ عالمی برادری امن کے قیام کیلئے ہماری قربانیوں ۔شراکت داری کو نظر انداز کر کے ۔ہم کو صرف دہشت گردی اور نسلی و لسانی حوالوں سے متنازفیہ قوم ثابت کرنے میں مشغول ہے۔۔یہ باعث حیرت نہیں۔۔ نہ ہی کس کے لئے سوچنے کا مقام۔ کہ ہم ’’67 سالوں‘‘ سے بغیر اہداف کے ۔۔بِنا پلاننگ ۔۔’’دلدل میں زیتون‘‘ اُگانے کی پالیسی پر کار بند رہے۔۔ اندرونی صورتحال کے تناظر میں بہت ساری برپا ہوئی جنگوں کا جائزہ لیں تو لمحہ موجود تک ہم کو اگر کسی جنگ میں فتح ۔کامیابی۔نصیب ہوئی ہے تو صرف اور صرف دِلوں کو لُبھاتے خوشنما الفاظ کی جادونگری سے عوام کو بیوقوف بنانے کی جنگ ہے جو قیادت ۔بڑے صنعتی کار ٹلز جیت چُکے ہیں۔۔ یہاں بھی شکست عوام کا مقدر رہی۔۔ غلط ۔۔نامناسب فیصلے اور قابلیت کی بجائے وفا داری۔ذاتی تعلقات۔پسند نا پسند اداروں کی انتظامی صلاحیتوں میں نظم ۔ترتیب کی کمی ۔۔بگاڑ کا سبب بنے۔۔سیاسی بنیادوں پر نوازنے کی پالیسی ملک کو ضعف پہنچانے اور معیشت کو نحیف کرنے کی خشت ِ اول کہی جا سکتی ہے۔۔ حقیقت پسندی سے کام لیں تو کس ادارے نے بھی دوسرے ادارے کو نہ کام کرنے سے روکا نہ دبائو ڈالا۔۔ ہم اگر کمزور ہوئے ہیں تو ’’میں میں‘‘ کی رٹ سے۔۔ کامل انتظامی کنٹرول کے باوجود سیاستدان۔انتظامیہ ۔۔قومی خدمت کے قابل رشک منصوبے ۔۔عوامی خوشحالی کے قابل عمل اقدامات کیوں نہ اُٹھا سکے؟؟
حکومتوں نے بو سیدہ۔ڈنگ ٹپائو۔ناقص ۔(محض کمپنی کی مشہوری کیلئے)سکیموں پر اربوں روپے کیوں پھونک ڈالے ۔ پوری قومی تاریخ کا یہ باب سب سے زیادہ افسوسناک رہا کہ ہم اپنے تنازعات ۔اختلافات کو’’سرحدوں کے پار‘‘ لے جاتے رہے۔۔اِن حالات میں ’’گاڑی کا ڈرائیور‘‘ تو تبدیل ہی ہوتا ہے۔۔(بیرونی مداخلت ۔دبائو) فی الوقت سیاسی گروہ۔حل طلب ایشوز کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام ٹھہرتے ہیں۔۔
دوسرے بحرانوں کے علاوہ۰۴ فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔۔جب تک قومی وسائل اور آمدنی کی تقسیم ہموار نہیں ہو گی تب تک غربت کے بڑھتے گراف کو روکنا ناممکن ہے۔۔جیسا کہ متعدد کالموں میں تجویز دے چکی ہوں کہ حکومت ۰۱۔۵۱ روپے کی کمی کی بجائے اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو منجمد کر دے اگر’’دو سال ‘‘ ممکن نہیں تو ’’ایک سال‘‘ کے لئے ہی سہی ۔یہ ریلیف معاشرے کو متوازن رکھنے اور پُر سکون بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔احتجاجی مظاہرے جمہوری روایات سہی مگر اِس طرح کا چلن عام ہو جانا بُرا شگون ہوگا۔۔ حکومت اور سیاسی اکابرین ’’ذاتی پسند نا پسند، میں ‘‘ کے ’’صفحہ ‘‘ کو پھاڑ ڈالیں۔۔قومی مفاد کے معاملات کو ’’سیاست زدہ ‘‘ نہ ہونے دیں۔۔ (کالا باغ ڈیم۔ پاک ایران گیس منصوبہ ) جمہوری نظام کی بقا کیلئے حکومتی و سیاسی قائدین مل بیٹھیں اور مسائل سے باہر نکلنے کے لئے خواہشات سے پاک نظام شکیل دینے کی جانب سفر کا آغاز کریں۔۔ ایشورز کو صحیح فورم پر اُٹھائیں بلکہ حل کرنے کے لئے ارادے اور نیت بھی نتھی کر لیں تو پھر جمہوری نظام کامستقبل بھی سوالیہ نشان سے محفوظ رہے گا۔