مودی کے آنے سے مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ، سانحہ گجرات سے بڑا المیہ ہو سکتا ہے: مبصرین
لندن+ نئی دہلی (اے پی اے) نریندر مودی کے دور میں 2002ء میں گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران 26 ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں بشمول خواتین بچوں کی شہادت کے بعد ان کے وزیراعظم بننے سے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی، ہجرت اور بے سروساماں ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے یہ سانحہ گجرات سے بھی بڑا المیہ ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس اور مبصرین کی آراء کے مطابق بی جے پی مسلم دشمنی اور مسلم نسل کشی کے باعث پوری دنیا میں بدنام ہے۔ بی جے پی کی لوک سبھا انتخابات میں تاریخی جیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ آیا اس بار کیا 26ہزار نہیں 26لاکھ بھارتی مسلمانوں کی شہادت کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے، آیا نریندری مودی اپنے قول کے مطابق دنیا بھر سے (خصوصاً پاکستانی اور بنگالی) ہندوئوں کو بھارت ماتا میں بسائیں گے اور مسلمانوں کی چھٹی کرا دینگے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گویا بھارتی مسلمان تنظیمیں اور رہنما ’سب اچھا ‘ اور مسلمان کسی سے ڈرنے والے نہیں جیسے بیانات تو دے رہے ہیں لیکن ان کی گفتگو اور چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہیں، نہ صرف بھارتی مسلمان ہی ’دبک‘ کر رہ گئے ہیں بلکہ پاکستان، سعودی عرب جیسے طاقتور اسلامی ممالک بھی پُر اسرار خاموشی لئے ہوئے ہیں، دوسری جانب عالمی سامراج امریکہ بھی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ اگر بی جے پی کے بھارتی سیاست میں کردار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لوک سبھا کے 1991ء کے انتخابات میں بی جے پی کل 545سیٹوں میں سے 120سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی، 1992میںبابری مسجد شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ جس کے بعد بی جے پی کٹر ہندو جماعت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔