سپریم کورٹ نے فاٹا اور پاٹا میں سول حکام کی مدد کیلئے فوج بلانے کی ریگولیشنز چیلنج کرنیکی ہدایت کر دی
اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ نے تاسف ملک لاپتہ کیس میں ان کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کو فاٹا اور پاٹا میں سول حکام کی مدد کیلئے مسلح افواج کو بلانے بارے ریگولیشنز کو چیلنج کرنے کی ہدایت کردی ہے کیونکہ پروفیسر ابراہیم اور پشاور کے جماعت اسلامی کے امیر نے ان ریگولیشنز کو چیلنج کررکھا ہے اور ابھی عدالت نے ان کا فیصلہ کرنا ہے جبکہ وزارت دفاع نے تسلیم کیا ہے کہ تاسف ملک کیخلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ان کو فاٹا اور پاٹا ریگولیشنز کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے، ادھر روحیفہ کیس میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ عدالت ان ریگولیشنز کے حوالے سے فیصلہ لے رکھا ہے۔ عدالت نے عابدہ ملک کی جانب سے حساس ادارے کیخلاف دائر توہین عدالت کی درخواست مسترد کردی ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وکیل کو وہ دلائل دینے چاہیے جس سے ان کے موکل کو فائدہ پہنچے کوئی شخص عدالتی فیصلے کو غلط قرار دینے کا حق نہیں رکھتا۔ ریگولیشنز کے تحت مسلح افواج کو فاٹا اور پاٹا میں وسیع اختیارات دیئے ہیں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ عدالت کو ان ریگولیشنز کیخلاف فیصلے دینے کے لئے کیا اختیارات حاصل ہیں ؟ اگر عدالت ان ریگولیشنز کو کالعدم قرار دیتی ہے تو ظاہر ہے اس میں وقت لگے لگا اس وقت تک وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے جاننا چاہتے ہیں کہ درمیانی عرصے میں گرفتار تاسف کو کیا ریلیف دے سکتے ہیں جبکہ طارق اسد نے دلائل میں کہا ہے کہ عدالت نے روحیفہ کیس میں غلط فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے غلط فیصلہ دینے والے ججوں کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کر رکھے ہیں۔ انہوں نے یہ دلائل پیر کے روز دیئے ہیں۔ جسٹس ناصر الملک نے پوچھا کہ تاسف ملک کو کس قانون کے تحت زیر حراست رکھا گیا ہے اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریگولیشن 2011ء کی شق 16ای کے تحت زیر حراست رکھا گیا ہے جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ جماعت اسلامی پشاور کے امیر نے اس کو چیلنج کررکھا ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ان پر تو کوئی الزام نہیں ہے اس پر عتیق شاہ نے آرڈر پڑھ کر سنایا۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ان پر کوئی مقدمہ تاحال درج نہیں ہے پھر وہ کیوں زیر حراست ہیں۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ حالات کے مطابق ریگولیشن کسی بھی شخص کو زیر حراست رکھنے کی اجازت دیتی ہیں جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ پھر اس کا ٹرائل کیسے ہوگا۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ سیکشن 11کے تحت وہ پابند سلاسل ہیں اور اس کے تحت ان کا ٹرائل ہوگا۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ سول پاور ایڈ رولز کیا کہتے ہیں؟ عتیق شاہ نے بتایا کہ مسلح افواج سے قانون کے مطابق سول ادارے مدد طلب کر سکتے ہیں۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اس حوالے سے مخصوص علاقے کا ذکر کیا گیا ہے۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ 245 کے تحت آرمڈ فورسز کو طلب کیا جاسکتا ہے یہ ریگولیشنز فاٹا اور پاٹا میں لگائی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں مسعود جنجوعہ لاپتہ کیس میں سپریم کورٹ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا کو عینی شاہد ڈاکٹر عمران منیر کے بھجوائے گئے شواہد اور ڈی وی ڈی کا جائزہ لے کر جواب 22 مئی تک عدالت پیش کرنے کا حکم دیا ہے جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں مسعود جنجوعہ لاپتہ کیس کا معمہ جلداز جلد حل ہو اور ہمیں بنیادی حقوق کے حوالے سے اس مقدمے کو جلد نمٹانے میں درخواست گزار سے زیادہ دلچسپی ہے‘ اگر ڈاکٹر منیر کا بیان اور شہادت اہم ہوئی تو عدالت ضرور جائزہ لے گی۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکٹر عمران منیر کا بیان اور ٹھوس شواہد اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی کیلئے ان کا وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ حساس اداروں کے افسر اور سابق صدر مشرف کے بیان حلفی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسعود جنجوعہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور ان کے زندہ ہونے کے حوالے سے کوئی شہادت موجود نہیں۔ انہوں نے میجر جنرل نصرت نعیم کے بیان حلفی کا حوالہ دیا۔ اس دوران آمنہ مسعود نے بات کرنا چاہی تو رزاق مرزا نے کہا کہ انہیں دلائل مکمل کرنے دیں اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو بیان پڑھنے میں کیا شرم آرہی ہے۔ رزاق اے مرزا نے کہا کہ آمنہ اس بات سے مکمل طور پر اگاہ ہیں۔ آپ کہتے ہیں تو بیان پڑھ دیتا ہوں اس دوران عدالت نے حساس اداروں کے افسر کے جمع کروائے گئے بیانات حلفی کا مطالعہ کیا۔