زرداری کی ریفرنسز میں بریت کیلئے درخواست پر فیصلہ 28 مئی کو سنایا جائیگا
اسلام آباد (نیٹ نیوز) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پانچ ریفرنسوں میں بریت سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو 28 مئی کو س±نایا جائے گا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق صدر کے خلاف مقدمات کی سماعت کی تو آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اس درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ ایک بھی ریفرنس میں ا±ن کے موکل کے خلاف کوئی گواہ پیش نہیں کر سکا۔ ا±نہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کے خلاف جتنے ریفرنس بھی دائر ہوئے ا±ن میں وہ مرکزی نہیں بلکہ شریک ملزم ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان تمام مقدمات میں جتنے بھی مرکزی ملزم تھے وہ یا تو رہا ہو چکے ہیں یا پھر فوت ہوگئے ہیں۔ ا±نہوں نے کہا کہ آئین کے تحت تمام افراد برابر ہیں، اس لئے اگر ان مقدمات میں دیگر افراد کو رہا کیا گیا ہے تو پھر آصف علی زرداری کو بھی ان مقدمات سے بری کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے مطابق ا±ن کے موکل کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں زیادہ سے زیادہ سزا سات سال ہے جبکہ ا±ن کے موکل ان ریفرنسوں میں 8 سال سے زائد عرصہ جیل میں رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں ایس جی ایس، کوٹیکنا، پولو گراﺅنڈ اور ارسس ٹریکٹر کے ریفرنس شامل ہیں۔ احتساب عدالت نے ان مقدمات میں استغاثہ کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے لئے سمن بھی جاری کر رکھے تھے تاہم سابق صدر کی جانب سے بریت کی درخواست دائر ہونے پر کارروائی رکی ہوئی ہے جبکہ بریت کی درخواست پر استغاثہ کی جانب سے مخالفت نہیں کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق آصف علی زرداری عہدہ صدارت سے الگ ہونے کے بعد ایک مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عدالت نے ملزم کو حاضری سے استثنیٰ دے رکھا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق 28 مئی کو بریت کی درخواست مسترد ہونے کی صورت میں ان گواہوں کو دوبارہ بھی عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔ سماعت کے بعد فاروق ایچ نائےک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کے خلاف جعلی کیسز بنائے گئے تمام ریفرنسز میں بے بنیاد کاغذات پیش کئے گئے، اس کے علاوہ کسی گواہ نے آصف زرداری کے ملوث ہونے کی بھی گواہی نہیں دی، نیب کو چاہئے تھا کہ وہ خود ہی کیسز واپس لے لیتا، سابق صدر کے خلاف17 سال سے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ کسی بھی مقدمے میں وکیل کا کام اپنے موکل کی صفائی پیش کرنا اور فیصلہ جج کے اختیار میں ہوتا ہے امید ہے کہ ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔