قیمتوں میں اضافہ تشویشناک ہے ، عوام کو اشیائے ضروریہ نہیں ملیں گی تو مداخلت کریں گے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے خیبر پی کے کو گندم کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے پر حکومت پنجاب جبکہ غریب لوگوں کو آٹے اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بارے وفاق اور صوبوں سے 28 مئی تک جواب طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے یہ حکم لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کے دوران جاری کیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ حکومت ہے اور نہ ہی حکومت چلانا چاہتی ہے تاہم لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنایا جائیگا۔ 41 سال گزر گئے عام آدمی کو صرف تجاویز پر ٹرخایا جارہا ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چمن کے راستے گندم ،آٹا اور دیگر اناج سرحد پر بھجوایا جارہا ہے۔ غریب آدمی کیا کرے یا مر جائے۔ ترپالوں ،گوداموں میں گندم پڑی سڑ رہی ہے۔ چوہے گندم کھا رہے ہیں اور اگر گندم شجر ممنوعہ ہے تو صرف غریب لوگوں کے لئے۔ بین الاقوامی معیار زندگی کی مثالیں دینا چھوڑ دیں۔ حکومت اپنے اپنے علاقوں میں غریب لوگوں کی فکر کریں۔ کیا غریب داتا دربار چلا جائے یا حکومت آٹا کھانے کو دے گی۔ حکومت نے جو کچھ کرنا ہے خود کرنا ہے ہم قانون سازی نہیں کر سکتے۔ حکومت پنجاب کا اصرار ہے کہ اس کے اقدامات غریبوں کے لئے انقلابی ہیں تو عدالت پوچھتی ہے کہ کیاپنجاب کے لوگ خوشحال ہوگئے ہیں؟ وہاں کے لوگوں کو گندم اور آٹا کم نرخوں پر دستیاب ہے تو ہم کیس ان کی حد تک بند کر دیتے ہیں ۔ہم ڈائریکٹو جاری نہیں کریں گے۔ وفاق اور صوبے غریب لوگوں کی ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنائیں ۔جماعت اسلامی بھی اسمبلی میں موجود ہے وہ حکومت سے قانون سازی کے لئے کیوں آواز نہیں اٹھاتی، سارا کام عدالتوں نے نہیں کرنا۔ اگر سارے کام ہم نے ہی کرنا ہیں تو پھر حکومتوں کے کیا فرائض باقی رہ جاتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاق اور صوبوں کوآئین کے آرٹیکلز9، 14 اور 38 پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے وفاق اور صوبوں سے رپورٹ طلب کی جس پر صوبوں نے رپورٹس جمع کروائیں۔ خیبر پی کے حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا کہ حکومت پنجاب 4500 میٹرک ٹن گندم کا مختص کوٹہ دینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ پنجاب کے گندم سے بھرے ٹرک چمن بارڈر کراس کرتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت نے بھی اس معاملے پر تحقیقات کرائی ہیں۔ عدالتی معاون تو ہوتی نہیں کیونکہ اب حالات یہ ہیں اور ریت پڑ گئی ہے کہ گنگا الٹی ہی بہتی ہے اور بہتی رہیگی۔ ہم بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔وکلاء اور عدالت کا یہ مشترکہ کاز ہے کہ آئین کے آرٹیکل (3)184 کے مقدمات میں کچھ زیادہ ہی کوشش کرنا ہوگی۔ یہ ایک قومی ایشو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ صوبوں میں اس میں کس حد تک اختیار دیا گیا دنیا بھر میں غذائی ضروریات پر تحقیقات ہو رہی ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بھوکے مررہے ہیں اور کس کو اس کی پروا تک نہیں ہے۔ اب عدالت یہ تو کر نہیں کر سکتی کہ کوئی عدالت کی معاونت نہ کرے تو عدالت بھی کچھ نہ کرے ہم سے جو کچھ ہو سکا ضرور کریں گے۔ لوگوں کو بھوکا دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے۔ سندھ میں تو ان کی ضرورت کے مطابق گندم پیدا ہوتی ہے۔ مسئلہ تو زیادہ تر خیبر پی کے اور بلوچستان کا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ چمن بارڈر کے پاس12 فلور ملز ہیں جن سے تمام تر آٹا سرحد پر جاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آٹے کی قیمتوں کے بارے میں پوزیشن المناک ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں کا مسئلہ ہے یہ پاکستان کے لئے انوکھا مسئلہ نہیں ہے ہم سب کی کچھ حدود ہیں۔ بہت سے لوگ جو رضا کارانہ طور پر خدمات سرانجام دیں گے۔ یہ نیشنل کاز ہے۔ لوگوں کو اناج نہیں مل رہا یا ساڑھے23 سو کیلوریز نہیں مل رہی ہیں دنیا بھر کی تحقیقات پر مشتمل رپورٹ آپ کو دی ہے اس کا جائزہ لے لیا۔ صوبوں نے اس ملک میں بہت کچھ کرنا ہے۔ وفاق تو کھانے پینے کی فراہمی کا ذمہ داری ہے ۔سیکرٹری سرکار ہے ہم تو صرف آئیڈیا دے سکتے ہیں۔ جب بھی آئین پڑھتا ہوں تو قانون سازی کرنے والوں پر رشک آیا ہے۔آئیڈیل آئین ہے اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ 41 سال گزر گئے حکومت صرف آئیڈیا اپنے ذہن میں نہ رکھے اس پر عملدرآمد بھی کرائے۔ سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت سے رابطہ کیا ہے اس حوالے سے کئی پروگرام 70 بلین خاندانوں کو دیئے جارہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ غریب ترین طبقہ اور امیر ترین طبقہ سبسڈیز آٹا کھا رہے ہیں۔ آپ نے تجویز دیں تھیں کہ اس میں فرق روا رکھا جائے۔آج بازار میں آٹا مہیا ہو رہا ہے ۔500 روپے فی 20کلو گرام فروخت ہو رہا ہے تو بتا دیں۔آپ کو قانون میں کوئی کچھ بتلا دیتا ہے۔ آپ اس کو حقیقت مان لیتے ہیں۔ 1150 روپے فی 20 کلو گرام راولپنڈی میں فروخت ہوتا رہا ہے۔ چمن بارڈر پر تین تین چار چار کلومیٹر تک ٹرکوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ آٹا، گندم اور کھاد سرحد پار جاری ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب ہو رہا ہے۔ آپ اس کے گواہ ہیں۔ عتیق شاہ نے کہا کہ آٹے کی ترسیل ہی کور ایشو ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایک کنبہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اس کی زندگی گزارنے کا معاملہ ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ معاشی حالات کو چھوڑ دیں۔ آئین و قانون کی بات کریں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بہت وقت لگایا ہے اس حوالے سے بھارتی نظام دیکھا ہے اس کا بھی جائزہ لے لیں۔ داتا دربار پر لنگر تو آج بھی مل رہا ہے مگر باقی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ غریب بے چارہ تفریح تو کرہی نہیں سکتا۔ آج دودھ کم اور پانی زیادہ مل رہا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد ڈیٹا اکٹھے کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ ہمیں بنیادی ضروریات چاہئیں۔ غریب لوگوں کو کم قیمت پر اناج دیں۔ پہلے راشن ڈپو ہوتے تھے جو لوگوں کو فائدہ دیتے تھے یہ ہمارا کام نہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ نجانے کتنے لوگوں کو آپ خوراک کے لئے پیسہ دیئے ہیں اس کا کیا فائدہ ،خوراک تو دیں اس سے کھاتہ پورا نہیں ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پیسہ دیں نہ دیں ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔ عدالت نے حکمنامہ تحریر کراتے ہوئے عدالتی تحقیقاتی عملے نے دنیا بھر کے ممالک میں خورا ک کے حوالے سے تمام تر تحقیق کی ہے۔ آٹے کی غریب آدمی کی فراہمی حکومت کا فریضہ ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ 45 سال سے آئین پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا اگر حکومت آئین کے آرٹیکل 9 اور 38 پر عمل درآمد یقینی نہیں بنا سکتی تو انہیں آئین سے نکال دیا جائے جہاں جہاں حکومت عوام کوبنیادی اشیا فراہم نہیں کرے گی عدالت ضرور مداخلت کرے گی۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، عدالت کو بتایا جائے کہ غریب کو ریلیف فراہم کرنے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔ عوام کو ہر حال میں اشیائے ضروریہ ان کی قوت خرید میں ملنی چاہیں۔ پوری دنیا میں فوڈ سکیورٹی کے معاملہ پر اقدامات کئے گئے لیکن ہمارے ہاں کوئی پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔ غریب کی مدد رکنے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں، ہم بازاروں میں نہیں جا سکتے کہ بھائومعلوم کریں۔ حکومت نے عوام کو یہ بنیادی چیزیں فراہم کرنا ہیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ ایک غریب خاندان جس کی زندگی اجیرن ہے، اس کیلئے حکومت کیا کر رہی ہے۔