عدالتی حکم کے باوجود ماحولیاتی اور صنعتی آلودگی جانچنے والی لیبارٹریز فعال نہ ہو سکیں
لاہور (شہزادہ خالد) عدالتی حکم کے باوجود 6 اضلاع میں قائم ہوا، پانی اور صنعتی آلودگی چیک کرنے والی لیبارٹریز کو فعال نہ کیا جا سکا جس سے حکومتی خزانے کو ماہانہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ فیکٹریز، کارخانوں کا زہریلا پانی چیک کرنے، ماحولیاتی آلودگی کا اندازہ لگانے کے لئے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے 2010ء میں شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی اور رحیم یار خاں میں کروڑوں روپے کی لاگت سے لیبارٹریز قائم کیں جن کو چلانے کے لئے سینکڑوں ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ 2012ء میں 84 ملازمین کو نوکری سے فارغ کر کے لیبارٹریز کو بند کر دیا گیا۔ دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ان لیبارٹریز میں کروڑوں روپے کے آلات، کیمیکل ناکارہ ہو گئے۔ کئی علاقوں میں جگہ کرائے پر لی گئی جس کا کرایہ بھی حکومتی خزانے سے ادا کیا جا رہا ہے۔ فارغ کئے گئے ملازمین نے عدالت سے رجوع کیا، فاضل عدالت عالیہ نے ان کی بحالی کے احکامات جاری کر دئیے اس کے باوجود لیبارٹریز کو فعال نہ کیا گیا اور حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رکھا لیکن اس کے باوجود ملازمین کو بحال کیا گیا اور نہ لیبارٹریز فعال کی گئیں۔ اعداد و شمار کے مطابق آبی آلودگی اور فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ صوتی آلودگی بھی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں صوتی آلودگی 91 ڈیسیبل تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق شور کی قابل برداشت حد 75 ڈیسیبل ہے۔ ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے مطابق بھی لاہور میں صوتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ فیکٹریوں کے زہریلے پانی کو بغیر و اٹر ٹریٹمنٹ کے نہروں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے عوام ہیپاٹائٹس، بلڈ پریشر، سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔