• news

آدم کے کسی روپ کی تحقیر نہ کر

اخباری اطلاعات کے مطابق سابق آمر پرویز مشرف جو قوم کو مُکے دکھاتا اور مقبول سیاسی قیادت کو ’’کِک لگانے‘‘ کے متکبرانہ اور رعونت بھرے دعوے کیا کرتا تھا، اُس کے سابق مصاحب جو اس کے دورِ اقتدار میں گُلچھڑے اُڑاتے رہے۔ آج وہ ایمرجنسی کے نفاذ کے مشورہ میں شامل ہونے سے یکسر منکر ہوگئے۔ یہ خبر پڑھ کر میں چونکا اور نہ ہی مجھے تعجب ہوا۔ کیونکہ ہمارا قومی طرزِعمل یہی رہا ہے کہ خلیل جبران کے بقول ’’ہر آنے والے کا استقبال شادیانے بجا کر اور ہر جانے والے کو آوازیں کَس کے رخصت کرتے ہیں۔‘‘ ابنِ زیاد شہادتِ حسین کے ارادے سے گھوڑے پر سوار ہونے لگا، تو ایک بڑھیا نے لگام تھام کر کہا ’’اے بدبخت! جانتا ہے تو کیا کرنے جا رہا ہے؟‘‘ زیاد بولا۔ ’’ہاں میں جانتا ہوں لیکن کیا کروں۔ دُنیا نقد ہے اور آخرت اُدھار۔‘‘
’’ہر دور کے یزید کے ساتھی بھی بنے ہیں
اور نام بھی ادب سے لیا ہے حسین کا‘‘
انسان خود سَر، خودغرض اور خود پسند ہوتا ہے۔ اِسی لئے اس کا رویہ ذات کی پرستش والا رہتا ہے۔ اس کی ایک جھلک وطن عزیز کے قومی اداروں کے سربراہوں اور نوکر شاہی کے رویوں میں جھلکتی ہے۔ آج ٹھنڈے ٹھار کمروں میں گوچی اور ارمانی کے سوٹ پہنے ہمارے بابوں کی سوچ پر جیسے اللہ تعالیٰ نے تالے لگا دئیے ہیں۔ یہ انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھتے اور اُنہیں اچھوت سمجھتے ہیں۔ سائلوں کو اپنے دفتر کے باہر، کوٹھی کے برآمدے میں گھنٹوں انتظار کروانے کے باوجود اُن کے ساتھ انصاف کی بجائے توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ وہ مقابل کا سٹیٹس دیکھ کر اُس سے اُنگلی یا ہاتھ ملاتے ہیں، اور وہ عالمِ اقتدار میں خدا کی زمین پر اس طرح اَکڑ اَکڑ کر چلتے ہیں۔جیسے یہ زمین صرف اُنہیں کے چلنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جب وہ ریٹائرڈ ہوں گے تو یہی لوگ اُن کے قریب سے منہ پھیر کر گزر جائیں گے۔ اُن کے کان ٹیلیفون کی گھنٹی سننے کو ترس جائیں گے۔ ایک دن اُن کا سارا کروفر، سارا رعب اور دبدبہ اور ساری بادشاہیاں ان کے فانی جسم سمیت خاک میں مل جائیں گی۔ وقت انہیں ملازمت سے، بیوی گھر سے اور بال بچے حرام کی کمائی ہوئی دولت سے بے دخل کر دیں گے، اور وہ اپنے لاشے اُٹھائے لاہور جمخانہ کے چاندنی لائونچ، اسلام آباد کلب کے ڈائننگ ہال، کراچی کلب یا DHA کے کرسٹل سے سجے آرائشی ڈیکوریشن پیسز کے درمیان تنہا، ویران خلاء میں گھورتے رہیں گے۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے باعث دنیا کی ہر نعمت پر دسترس رکھنے کے باوجود وہ سلاد کے پتے چبانے پر مجبور ہو جائیں گے اور ایک دن انہیں چارپائی پر ڈال کر چار آدمی میانی صاحب چھوڑ آئیں گے۔ چونکہ اُن کے اعمال نامے میں کوئی کارِ خیر درج نہیں ہوا سُو وہ بھولی داستان بن جائیں گے۔ یاد رکھئے تاریخ بھی صرف اُن قبروں پر رُکتی ہے جہاں انسانوں کے نجات دہندہ سوئے ہوتے ہیں۔
مقامِ عبرت ہے کہ نمرود جیسا بادشاہ حقیر سے مچھر کے ہاتھوں ذلیل ہو کر مرا۔ سکندرِ اعظم جسے لاکھوں سپاہیوں کے لشکر شکست نہ دے سکے۔ بھالے کے ایک معمولی زخم سے ہلاک ہو گیا۔ ہٹلر جیسا شخص خودکشی پر مجبور ہوا۔ بونا پارٹ سینٹ ہلینا میں بے بسی کی موت مرا۔ آخر ابراہم لنکن کا قاتل کہاں کا سپہ سالار تھا؟ بھٹو نے کس جنگ میں جان گنوائی؟ اندرا گاندھی کو مارنے والے پورس کون تھے؟ جنرل ضیاء کو کس کی موت نے آن گھیرا تھا؟
پاکستان کے ٹیکسوں پر پلنے والے ان فرعونوں کی فرعونیت کا یہ عالم ہے کہ عام پاکستانی تو دور کی بات انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے اخلاص و نیک نیتی، انتخابی نعرے اور مریم نواز کے خواب ’’یوتھ قرضہ اسکیم‘‘ کو بھی اپنی نوکر شاہی چالوں سے چکناچور کر دیا۔افسر شاہی کا بے نام سا پِلّا جو خفیہ طور پر اندر ہی اندر اُن کے درمیان پرورش پا رہا ہے۔ ایک دم انگڑائی لے کر جوان ہو گیا اور دُم اکڑا کر، چھاتی پھُلا کر، دھوتنی اُٹھا کر باولے کُتے کی طرح بے تحاشا بھونک بھونک کر کہنے لگا کہ دیکھا پھر؟ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ان بے اعتبار غریبوں کو قرضے بھلا کیسے دئیے جا سکتے ہیں؟
ناقدین کے مطابق یہ سکیم اپنی موت آپ مر چکی ہے۔ جبکہ بینکوں کے زعما بڑی ڈھٹائی سے بتاتے ہیں کہ یہ اسکیم وقتی طور پر سکتے میں چلی گئی تھی۔ لیکن اب 28 مئی کو پانچ ہزار تین سو پچاس نوجوانوں کو قرضے جارئی کر دئیے جائیں گے۔ ہمارے یہ ذہین و فطین بینکار ایک سال گزرنے کے باوجود پاکستان کے ڈیڑھ کروڑ بے روزگاروں میں سے پانچ ہزار نوجوان نہیں چُن پائے جنہیں اس قرضے کا مستحق قرار دیا جا سکے۔ لیکن معاملہ اگر بااثر سیاستدانوں اور سرمایہ کاروں کا ہوتا تو ان بینکوں کی تجوریاں ’’کھل جا سم سم‘‘ کی مانند وَا ہو جاتیں۔ لیکن پاکستان کی 18کروڑ آبادی میں ایک بھی ڈاکٹر یونس نہیں جو ایک نئے ’’گرامین‘‘ کی بنیاد رکھ سکے۔ غریب خواہ بنگلہ دیش کا ہو یا پاکستان کا وہ سرمایہ دار، بزنس مین اور جاگیردار سے کہیں زیادہ ایماندار ہوتا ہے۔ ہے کوئی جو پاکستان کے غریبوں پر بھی اعتماد کرے؟ محترم نواز شریف صاحب آپ ریت کے گھڑوں میں پانی جمع کرنے اور دلدل پر عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خرابی انجن میں نہیں ڈرائیور کی نیت میں ہے۔جو ’’اوبجیکشن‘‘ (Objection) لگا کر ہر فائل سرد خانے میں ڈال دیتا ہے۔افسر شاہی کا یہ مافیا اتنا بھی نہیں سوچتا کہ قدرت نے اُنہیں غریب کی خدمت کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ جس سے و ہ اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں۔ اپنی زندگی میں ہم جتنے دل راضی کریں گے۔ اُتنے ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ ہماری نیکیاں ہی ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔ حالانکہ مرتا ہر انسان ہے لیکن جیتا کوئی کوئی ہے۔
سکہ رائج الوقت تو یہی ہے کہ کامیاب بیوروکریٹ بننے کے لئے آج کل 25% یاری، 50% عیاری اور 25% نہاری درکار ہوتی ہے۔ لیکن قانونِ قدرت ابدی ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ جوانی میں ہمیں بڑھاپے اور عروج میں زوال کو یاد رکھنا چاہئے۔ ورنہ کم از کم ثمرقند میں واقع ’’شاہِ زنداں‘‘ قبرستان کے ماتھے پر نشانِ عبرت کی مانند درج یہ مقولہ تو بہرحال پیشِ نظر رکھنا چاہئے
 ’’تم مصر کے فرماں روا ہو یا چین کے بادشاہ آخر میں تم کو آنا یہیں ہے۔‘‘ سُو
’’آدم کے کسی روپ کی تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر‘‘

ای پیپر-دی نیشن