• news

الّو باٹا

نوجوان نیلے رنگ کے بہترین سوٹ میں شہر کے پُر رونق بازار میں چہل قدمی کے انداز میں گزر رہا تھا۔ ٹائی میچنگ تھی ۔ سر پر تھوڑا سا ٹیڑھا ہیٹ سجا تھا۔ گہرے رنگ کا چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔ پائوں میں پشاوری چپل سفید جرابوں کے ساتھ پہن رکھی تھی۔ ایک ہاتھ میں سگار دوسرے میں قلفی پکڑی ہوئی تھی۔ سگار کا کش اور قلفی کی ڈَکی بار ی بار ی کاٹ رہا تھا۔گویا قلفی گھُٹّووٹّی کھارہا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ چند قدم چلنے والے شخص سے اس سے گرمی کے باعث پسینے میں شرابور چھ سات سالہ بیٹے نے پوچھا ’’ ابو !یہ انکل کون ہیں‘‘ تو اُس شخص کی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’ الو باٹا۔‘‘
الو باٹا کی مزید وضاحت جاوید ہاشمی کے چند سال قبل دئیے گئے ایک بیان سے بھی ہوجاتی ہے ’’فوج سیاستدانوں کو الو باٹا سمجھتی ہے ‘‘الو باٹا قسم کے کردار اپنے لباس اور افعال ہی سے نہیں اپنی گفتگو سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ایک الو باٹا قسم کے سردار سے کسی نے چائے کی میز پرگپ شپ میں پوچھا کہ کامن سنس کس کو کہتے ہیں؟ سردار نے نفی میں سر ہلایا تو اُس نے میز پر اپنا ہاتھ رکھا اور سردار سے کہا اس پر مکا مارو، مکے کا ایکشن مکمل ہونے سے ذرا پہلے اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ سردار کا مکا میز پر پڑا۔ ساتھی نے کہا جو میں نے کیا وہ کامن سنس ہے ۔ سردار اس سے بڑا متاثر ہوا۔ گائوں گیا اور دوسرے سردار کو کامن سنس کا مطلب سمجھانے لگا۔ میز تو موجود نہیں تھی اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے مکا مارنے کو کہا ایکشن مکمل ہونے سے قبل اپنا ہاتھ نیچے کھینچ لیا۔
 ہمارے اردگرد الو باٹا قسم کے کردار بکھرے پڑے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کو نفسیات کی زبان میں اے ٹائپ شخصیت کہاجاتا ہے جس کا اردو میں ڈھیٹ سے بہتر متبادل شاید نہیں ہے۔ ایسے شخص کے پاس عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ آپ اسے جو کچھ بھی کہیں اس پر کوئی اثر نہیںہوتا، دھوپ میں کھڑا کرکے چھتر ماریں تب بھی اسکے ضمیر میں جنبش پیدا ہوتی ہے نہ انا پر خلش اور نہ ہی غیرت انگڑائی لیتی ہے۔ ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں الو باٹا کے ساتھ اے ٹائپ شخصیتیں بھی موجود ہیں۔
 ذکا اشرف پر صدر آصف علی زرداری مہربان ہوئے۔زرداری صاحب ادھار پر نوازش نہیں کرتے۔ ذکاء نے چیئر مین بن کر کرکٹ کے پیٹرن انچیف سے مرضی کی بات لکھواکر بورڈ کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی۔ معاملہ عدالت گیا تو ذکاء اشرف معطل ہوگئے۔ وزیراعظم نواز شریف کسی کا ادھار اپنے سر نہیں رکھتے۔ نجم سیٹھی کو پی سی بی کی سربراہی سونپ دی۔ ذکا اشرف کی اپیل پر فیصلہ حق میں آیا تو نجم سیٹھی کو گھرجانا پڑا۔ میاں نواز شریف ان کو ہر صورت بورڈ پر مسلط رکھناچاہتے تھے۔ بورڈ کے آئین میں ترمیم کرکے ذکاء اشرف کو فارغ کردیا۔ ذکا اشرف پھرعدالت گئے اور بحال ہوئے حکومت نے نجم سیٹھی کی دوسری بار معطلی کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں کی تو عدالت نے کہا کہ اس کے پاس ڈویژن بنچ کی گنجائش نہیں۔ یوں معاملہ سپریم کورٹ گیا جس کے تین رکنی بنچ نے نجم سیٹھی کو بحال کردیا۔اب تک نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف تین تین بار کرکٹ بورڈ کے سربراہ بننے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ عدالتی سسٹم اور ہمارا قانون شاید 2 جمع 2چار کی طرح کلیئر نہیں ہے۔ایسا ہوتا تو ایک ہی معاملے میں مختلف فیصلے سامنے نہ آتے۔ دونوں حضرات نے خود کو نہ صرف بورڈ کی چیئر مینی کا خبطی ثابت کیا ہے بلکہ جو کچھ ان کے بارے میں کہاجارہا ہے یہ اے ٹائپ شخصات کی کیٹیگر ی میں بھی فال کرتے ہیں۔ مزید برآں جیسے ہی چیئر مین بنتے ہیں خود کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں۔ بورڈ کسی کے ابا جی کی میراث اور ریاست نہیں،اس کے قائدے ضوابط اور اصول ہونگے جو بھی الو باٹا آیا اس نے پہلے والے کی تقرریاں منسوخ کیں اور نئے بندے لاکے کھڑے کردئیے۔ پہلے سے جو موجود ہیں کیا ان میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں یا وہ اسرائیل سے آئے ہیں۔ بھارت کیساتھ سب سربراہان کھیلنے کی تمنا کرتے ہیں لیکن اپنے پیشرو کو نیچا دکھانے کیلئے بیان بازی کو فرض اوّلین سمجھتے ہیں۔ نجم سیٹھی کو اعتراض تھا کہ مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہی کیوں جاتا ہے۔ ذکاء اشرف کو ایسا ہی اعتراض اس عدالت پر ہوگا جس نے ان کی معطلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ چیئر مین بننے والے نظام سقہ نہ بنیں۔ یہ سرکاری ادارہ ہے۔ چور دروازے سے آنے سے ذاتی ملکیت نہیں بن جاتا۔ خدا نے عزت دی ہے تو اپنے ہاتھوں سے اس پر دھول نہ ڈالیں۔ جاوید ہاشمی نے جہاں یہ کہا کہ فوج سیاستدانوں کو الو باٹا سمجھتی ہے وہیں یہ بھی اعتراف کیاکہ الو باٹا سیاستدانوں نے فوج سے بہتر کام کئے ہیں۔ جاوید ہاشمی کے اعتراف کے باوجودہر سیاستدان الو باٹا نہیں ہے تاہم زیادہ تر نے خود کو اپنے کردار عمل سے ایسا ثابت کیا ہے ۔ایسے ہی کرداروں کے باعث آج حکومت کی کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے۔
ایک دور میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے فوج پر وار کیا اور شاید اس کی آنکھیں پوری طرح سرخ نہیں ہوئی تھیں، کچی آنکھوں سے’’شیر‘‘پر جست لگادی اوروار الٹا پڑ گیا۔ایک میڈیا گروپ خود کو شیر سمجھ کر اصل شیر پر جھپٹ پڑا، اس کی آنکھیں بھی پوری طرح سرخ نہیں ہوئی تھیں اور اصل شیرکی گرفت میں آگیا۔ حکومت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ پرویز رشید ، عرفان صدیقی اور فواد حسن فواد دبئی جاکر میر شکیل کو ہلہ شیری دے رہے ہیں۔ حکومت کو اس کی ایسی الو باٹا پالیسیاں لے کر ڈوب سکتی ہیں۔ فوج کو جیو اور جنگ نے جس طرح تذلیل اور تضحیک کا نشانہ بنایا اس پر آئی ایس آئی نے اس کی بندش کیلئے پیمرا میں درخواست دی جس پر حکومت نے کوئی فیصلہ نہ ہونے دیا۔ گذشتہ روز 5 ممبروں نے جیو کے لائسنس معطل کردئیے اس پر کچھ وزیر آگ بگولا ہیں۔ رانا ثناء اللہ جلال اور اشتعال میںنظر آئے۔ پرویز رشید حواس باختہ پائے گئے۔ حکومت کو شاید فوج کے خلاف الزام تراشی اور دشنام طرازی کرنیوالوں کے شانہ بشانہ ہونے کے خطرات کا ادراک نہیں ہے یا پھر زیادہ ہی پُر اعتماد ہے۔
 آئی ایس ایس نے بلاشبہ اندرونی و بیرونی معاملات میں خود کو بہترین ایجنسی ثابت کیا ۔ یہ ایسے حملے نہیں کراتی کہ ٹارگٹ بھاگ کر آغا خان ہسپتال پہنچ جائے۔ وہ خاموشی سے اپنا فرض نبھا رہی ہے، پیمرا کے 5ارکان نے خود بخود فیصلہ نہیں کردیا، انہوں نے جو فیصلہ کیا اس پر حکومت کی رکاوٹوں کے باوجود عمل ہونا ہے ۔ معافیوں اور حکومتی مینڈکیوں کے ٹرانے کے باوجود ہونا ہے۔ یہ فیصلہ کرانے والے حکومت اور میڈیا گروپ کے مالک سے زیادہ طاقتور ہیں۔ حکومت نے اپنے ارکان کو گھر بٹھا دیا اور فیصلہ کرنیوالوں نے میر شکیل کا فون نہیں سنا۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر مگر مچھ سے بیر کیاممکن ہے؟۔حالات و معاملات کس طرف جا رہے ہیں،اس کا اندازہ نواز شریف،زرادری عمران سمیت 63سایاستدانوں اور بیروکریٹس کے 300ارب ڈالربیرون ممالک موجود ہیںاس پر عدالت نے انہیں طلب کیا ہے۔یہ ہیں ہماری جمہوریت اور سیاست کی کہکشاں کے درخشندہ ستارے۔انتخابات کی ساکھ مجروع ہوچکی ہے ۔سپریم کورٹ نے ریکارڈ طلب کر لیا ہے ۔ایسے میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس کے ذمہ دار سیاسی الوباٹوں اور اے ٹائپ شخصیات کے سوا اور کوئی نہیں ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن