6 ارب کا سکینڈل : انجم عقیل کا مقدمہ ایف آئی اے کو کیسے منتقل ہوا‘ نیب نے اب تک ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا : سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے پولیس فائونڈیشن کے 6 ارب روپے کے سکینڈل میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما انجم عقیل خان کی نظرثانی درخواست کی سماعت میں پولیس سے ایف آئی اے میں مقدمے کی منتقلی بارے تمام ریکارڈ طلب کیا ہے اور سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی۔ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کیا سقم ہے کہ جس کی وجہ سے انجم عقیل نے نظرثانی کی درخواست دائر کی‘ جب سپریم کورٹ نے پولیس سے مقدمہ ایف آئی اے میں منتقل کرنے کی ہدایات نہیں دی تھیں تو پھر یہ مقدمہ کیسے منتقل ہوا‘ نیب نے اب تک اس پر ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا اور ٹرائل میں پیشرفت کیوں نہیں ہوسکی؟ اراضی مالکان‘ فائونڈیشن کیساتھ ساتھ ان درخواست گزاروں کا کیا ہوگا جن کا حق متاثر ہوا۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دئیے کہ انجم عقیل نے اراضی کی قیمت موجودہ مارکیٹ نرخوں کے مطابق نہیں بلکہ 2004ء کے نرخوں کے مطابق ادا کی‘ ایک معاہدے کے بعد دوسرے معاہدے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران انجم عقیل کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان پیش ہوئے اور کہا کہ ظفر اقبال قریشی پولیس فائونڈیشن کے صدر تھے۔ جب معاملات سامنے آئے تو پولیس فائونڈیشن نے خود معاہدہ تبدیل کیا۔ پہلا معاہدہ اچھا تھا دوسرا معاہدہ کمیٹی نے کیا تھا تب تیسرا معاہدہ کیا گیا۔ مجھ پر شرائط لاگو کی گئیں میں نے وہ بھی تسلیم کیں۔ 27 مئی 2011ء میں پانچ ہزار کے سٹام پیپر حلف نامے پر دستخط کئے تھے۔ 2004ء میں کہا تھا کہ اراضی نہیں دے سکتا۔ 126 کنال اور 6 مرلہ اراضی سکیم کے تحت مجھے دینے کو کہا تھا میں نے کہا تھا کہ یہ اراضی نہیں دے سکتا۔ چیئرمین این پی ایف نے اراضی کے جو نرخ مقرر کئے میں نے قبول کئے۔ 2004ء میں جو قیمت بنتی تھی وہی نرخ مقرر کئے گئے۔ یہ معاہدہ عدالتی فیصلے میں بھی شامل ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ کونسی تبدیلی آئی تھی اور اس کے آپ پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا چیز فیصلے میں موجود نہیں ہے۔ انجم عقیل کی جانب سے مخدوم خان نے کہا کہ اگر مجھ پر سول ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو دیکھ لیا جائے کہ 2004ء میں کیا نرخ تھے۔ میرا ایک سیاسی کیریئر ہے مجھ پر فوجداری الزامات عائد کئے گئے۔ میں نے معاہدے اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے کئے تھے۔ میں نے تو زائد رقم ادا کی تھی اگر میں نے غلط کام کرنے تھے تو پھر مجھے معاہدے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر میرے خلاف چیپٹر کلوز کیا جاتا ہے تو میں تمامتر رقم کی ادائیگی کیلئے مکمل طور پر تیار ہوں۔ اگر فریقین اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ سول مقدمہ بنتا ہے تو کیا پھر بھی معاہدوں کو دیکھا جائے گا۔ معاہدے کے بعد کسی شخص کیخلاف فوجداری کارروائی انتہائی نامناسب ہے اور کیا نیب قانون کے مطابق کام کررہا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ پر سول اور فوجداری دو طرح کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ انجم عقیل کے وکیل نے کہا کہ 252 کنال اراضی انجم عقیل نے دینی تھی جو دے دی دوسرے معاہدے میں 318 کنال 12 مرلہ دینا تھی جبکہ تیسرے معاہدے میں 58 کنال اراضی 85 ہزار روپے فی کنال دینا تھی، 356 کنال اراضی دے دی گئی، 126 کنال 6 مرلہ اراضی رہ گئی، 563 کنال اراضی این پی ایف کو منتقل کی گئی۔ جسٹس ناصر نے کہا کہ تین فریقین یہاں آئے ہوئے ہیں ایک درخواست گزار، اراضی مالکان اور تیسرے فائونڈیشن آئی ہوئی ہے۔ درخواست گزاروں کا کیا ہو گا۔