بجٹ میں 22 ارب روپے کی کمی سے خیبر پی کے مالی بحران کا شکار ہو سکتا ہے: سراج الحق
لاہور (سپیشل رپورٹر) خیبر پی کے کے سینئر وزیر خزانہ سراج الحق نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 160 کی روشنی میں وفاق اور صوبوں کے مابین محاصل کی تقسیم نیشنل فنانس کمشن کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔ این ایف سی کی کارروائی جس میں وفاق اور صوبوں کے مابین تفصیلی مباحثے کے بعد محاصل کی عمودی و افقی تقسیم پر مشتمل ایک متفقہ ایوارڈ جاری کیا جاتا ہے جو کہ پانچ سال کے لئے نافذالعمل رہتا ہے۔ سول سیکرٹریٹ کے کیبنٹ روم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساتواں نیشنل فنانس کمشن مالی سال 2010-11 سے 2014-15 تک نافذالعمل ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھارویں ترمیم کے مطابق آرٹیکل 160 کی سب شق3(B)کے تحت وفاقی اور صوبائی وزرائے خزانہ پابند ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کا جائزہ لیں۔ اُنہوں نے کہا کہ 20 مئی کو اسلام آباد اجلاس کے عمومی ایجنڈے کے علاوہ خیبر پی کے حکومت نے وفاقی وزیر خزانہ کی توجہ صوبے کو درپیش دوسرے اہم مالی مسائل کی طرف دلائی اور ان کے فوری حل پر زور دیا۔ اجلاس کے شرکا کے نوٹس میں لایا گیا کہ NFC کے فارمولہ کے مطابق محاصل کی عمودی تقسیم کی مد میں صوبوں کا حصہ57.5 فیصد بنتا ہے جبکہ افقی تقسیم کے تحت خیبر پی کے کا حصہ 14.62 فیصد جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی مد میں تمام قابل تقسیم محاصل کا 1 فیصد جو کہ صوبائی حصہ کا تقریباً 1.8 فیصد بنتا ہے صوبے کو واجب الادا ہے۔ اس طرح سے خیبر پی کے کا کل حصہ تمام قابل تقسیم محاصل کا 8.97 فیصد بنتا ہے۔ تاہم کئی مرتبہ کل قابل تقسیم محاصل کے حدف میں صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر تخفیف کی گئی اور کبھی 2345 ارب روپے، کبھی 2270 ارب روپے اور بالاخر 2229 ارب روپے یکطرفہ طور پر حدف مقرر کیا گیا جس کے نتیجے میں صوبے کواپنے پہلے سے قلیل بجٹ میں قریباً 22 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے جس سے صوبہ شدید مالی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ اجلاس میں وفاقی حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ تمام تصفیہ طلب امور کو جلد حل کرلیا جائے گا اور صوبے کے سیس کے نفاذ کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں فوری طور پر دور کی جائیں گی۔جس کے بعد اس سیسز کی مد میں خاطر خواہ رقم صوبائی حکومت کے محاصل میں جمع ہونا شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی جس میں یہ طے پایا تھا کہ اگر 110 ارب روپے کے بقایا جات کی بروقت ادائیگی نہ کی گئی تو اس پر سالانہ 10 فیصدکے حساب سے مارک اپ ادا کی جائے گا۔ اس شرح سے 56 ارب روپے کا مارک اپ بنتا ہے جسکی ادائیگی پر وفاقی حکومت نے رضا مندی ظاہر کی ہے۔