بڑی مشکل سے جمہوریت قائم ہوئی‘ یہ تاثر غلط ہے ہم نے ہر کام کروانے کیلئے چابک اٹھا رکھا ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے اور تنخواہوں و دیگر مراعات کی فراہمی سے متعلق کیس میں عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کے ذمہ داروں کے نام ایک بار پھر طلب کر لئے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے سے معاملے پر قانون سازی کے لئے مجوزہ آرڈیننس کی کاپیاں عدالت اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فراہم کرنے کی ہدایات کرتے ہوئے مزید سماعت 28مئی تک ملتوی کر دی ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں بڑی مشکل سے جمہوریت قائم ہوئی ہے۔ عدالت کی طرف سے یہ تاثر جانا غلط ہے کہ ہم نے ہر کام کرانے کے لئے کوئی ’’چابک‘‘ اٹھا رکھا ہے اور ہر کام زبردستی کرانا چاہتے ہیں یہ تو آئین پاکستان کے تحت گڈ گورننس کے لئے جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہماری بچیاں ہیں جو دور دراز سے اپنا حق لینے آتی ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکز کو مستقل کرنے اور مراعات دینے سے متعلق قانون سازی کے لئے ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکز کو تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں۔ قاسم میر جٹ کا کہنا تھا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مارچ تک تنخواہوں کی ادائیگی کر دی گئی ہے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہیں ادا کرنا صوبے کا کام ہے۔ ہمارا کام عدالت چلانا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا مزید کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سی سی آئی نے فیصلہ دیا ہے کہ 2017ء کے بعد تنخواہوں کے لئے وفاق فنڈز جاری کرے گا۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قانون کی ایسی شق بتائیں جو اس نقطے کی سپورٹ کرتی ہو۔ خیبر پی کے کی جانب سے زاہد لطیف قریشی کا کہنا تھا کہ بل اسمبلی بھیج دیا گیا ہے۔ جیسے ہی اجلاس شروع ہو گا تو بل منظور کر لیا جائے گا۔ بلوچستان کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا نیا سیکرٹری آیا ہے وہ یہ سمجھتا تھا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے اور تنخواہوں سمیت دیگر مراعات فراہم کرنے سے متعلق قانون سازی کی ضرورت نہیں لیکن اب اس حوالے سے میٹنگ کی گئی ہے۔ عدالت کچھ وقت دے۔