سول ملٹری تنائو میں اضافے کے آثار
اب تو ہراندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ فوج اور حکومت، فوج اور میڈیاا ور فوج اور سول سوسائٹی میں سخت کشیدگی کی کیفیت ہے اور یہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ میڈیا اور سول سوسائٹی کا بڑا حصہ فوج کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے ، اسی فوج کے ساتھ جسے چند ماہ پہلے مشرف کیس کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر جیسے ہی ایک میڈیا ہائوس نے آئی ایس ا ٓئی چیف کے خلاف مہم کھڑی کی تو لوگ بھانپ گئے کہ فوج کے لئے ساری گالیاں ایک بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہیں ۔ مگر آرمی بیشنگ مہم میں ایک میڈیا ہائوس تنہا ہو گیا، باقی ملکی میڈیا نے اس کا ساتھ نہ دیا۔سول سوسائٹی بھی سڑکوں پر نکل آئی اور وہی پینسٹھ والے جذبے زندہ ہو گئے۔
حکومت جو ایک ا ٓئینی ادارہ ہے اور جسے دوسرے آئینی ادارے کا تحفظ کرنا چاہئے تھا، وہ بد قسمتی سے لائن کے دوسری طرف تن کر کھڑی ہو گئی۔ حکومتی وزرا نے فوج کے حق میںجلوس نکالنے والوں کی یہ کہہ کر تضحیک کی کہ وہ نوکری کی تلاش میں ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات نے بار بار کہا کہ میڈیا پر کوئی قدغن عائد نہیںکی جائے گی، وزیر اعظم کے دل میںبھی اسی میڈیا ہائوس کے زخمی صحافی کے لئے جذبات بھر آئے اور وہ اس کی عیادت کے لئے کراچی کے ہسپتال میں جا پہنچے، یہی وہ موقع ہے جب فوج نے بھی کھل کر اپنے کارڈ کھیلے اور آرمی چیف نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کا دور ہ کر کے ظاہر کیا کہ جس ادارے کو مطعون کیا جارہاہے ،وہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک نئی اور واضح صف بندی تھی جس کاکلائمیکس پیمرا کے احاطے میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں حکومتی ارکان نے اپنے آقائوں کے اشارہ ابرو کی پیروی کرنے کو ترجیح دی اور قانون کو پس پشت ڈال دیا۔ یہی پیمرا ہے جو چشم زدن میں کیبل آپریٹرز یا ٹی وی چینلز کے خلاف کاروائی کر گزرتا ہے مگر یہاں فوج جیسے قومی اہمیت کے ادارے کی درخواست کو رائے لینے کے لئے وزارت قانون کا راستہ دکھا دیا گیا۔اور اب اگر پیمرا میںایک فیصلہ ہو گیا ہے تو حکومتی ارکان نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
فوج پر زیادہ برا وقت آ یا تو جنرل راحیل کو کہنا پڑا تھا کہ وہ اپنے ادارے کے وقار کی حفاظت کریں گے مگر ساتھ ہی انہوںنے یقین دلایا تھا کہ فوج باقی ہر ادارے کا احترام کرتی ہے، فوج ضرور باقی اداروں کا خیال رکھتی ہو گی مگر اس کا خیال کم از کم حکومت کو نہیں۔ اور اگر ہے تو کہیںنظر نہیں آتا۔جو بیانات وزیر اطلاعات پرویز رشید اور رانا ثنا للہ دے رہے ہیں ،یا جو بیان سعد رفیق اور خواجہ آصف نے دیئے ، وہ فوج اورا سکے بہی خواہوں کی دل آزاری کا موجب بنے۔جبکہ فوج نے ابھی تک جواب میں حکومت یا اس کے وزرا کے خلاف کوئی بیان بازی نہیں کی، ایک میڈیا ہائوس سے مسئلہ ہوا تو اس پر بھی قانون کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پیمرا سے رجوع کیا گیا جہاں فوج کی داد رسی نہیں کی گئی۔
وینا ملک نے لوگوں کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچائی ، ہر کوئی حرمت رسول ﷺ کا سوال ا ٹھا رہا ہے، یہ اتنا گھنائونا جرم ہے کہ وینا کو فوری طور پر پولیس کی تحویل میںلیا جاناچاہئے تھا ، مشرف پر ایک مقدمہ چل رہا ہے ، اسے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی ڈال دیا گیاے مگر پیغمبر اسلام ﷺ کی شا ن میں گستاخی کی مرتکب وینا ملک کو حکومت نے کسی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میںنہیں ڈالا ،ا ور اب کسی کو معلوم نہیںکہ وہ ملک میں بھی ہے یا نہیں۔
میںنہیں کہہ سکتا کہ حکومت اور فوج کے تعلقات میں دراڑ کب آئی مگر تجزیے کی رو سے کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن یا ان کے ساتھ مذاکرات کی بنا پر پہلا اختلاف رونما ہوا ۔ میرا اندازہ ہے کہ فوج نے تمام سیاسی جماعتوں کے موڈ کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کے عمل کا ساتھ دیا یہ الگ مسئلہ ہے کہ حکومت کی پہلی کمیٹی صرف ٹی وی چینلز پر شو شا سے زیادہ شغف رکھتی تھی۔ وہ دو چار دن پبلسٹی کی بہار کے مزے لوٹ کر رخصت ہو گئی، دوسری سرکاری کمیٹی کہیںنظر ہی نہیں آتی۔
فوج کے نزدیک دہشت گردی کا حل طاقت میںمضمر ہے جس سے کام لے کراس نے سوات کلیئر کروایا اور پھرفاٹا کا وہ دشوار گزار علاقہ بھی چھیاسی فیصد تک صاف کرا لیاجس کے اندرفاتحین عالم بھی جھانکنے کی جرات نہ کر سکے ۔اور جہاں بقول حفیظ جالندھری باد صر صر بھی ڈر ڈر کے قدم رکھتی ہے۔گزشتہ شب بھی فوج نے اس علاقے میں شدید بمباری کی ہے اور ان سطو رکی اشاعت کے ساتھ ہی پتہ چل سکے گا کہ اس کارپٹ بمباری میں کتنے دہشت گرد نشانہ بنے تاہم میں آ پ کویہ بتاتا چلوں کی آپ نے انٹر نیٹ پر ایک وڈیو دیکھی ہو گی جس میں ایک دہشت گرد پاک فوج کی کٹی ہوئی گردنوں کو فٹ بال کی طرح ٹھوکریں مارتا نظر آتا ہے، پچھلے دنوںکے ایک فوجی ایکشن میں یہ فٹ بالر مارا جا چکاہے۔فوج کی اس کاروائی پر حکومت کا رد عمل کیا ہو گا، اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔مگر دنیا کی کوئی حکومت کسی فوجی کواپنے اوپر حملہ کرنے والے کے خلاف ایکشن سے نہیں روک سکتی۔جنگ اور امن کا فیصلہ اس فوجی کے ہاتھ میں ہوتاہے جو پہلے مورچے میں ٹریگر پر ہاتھ رکھے بیٹھاہوتا ہے۔
تو فوج کے ساتھ تنائو کیا رنگ دکھائے گا۔کیا پاکستان تھائی لینڈ کا منظر پیش کرے گا، کیا یہ لیبیا بنے گا یا مصر کا ڈرامہ یہاں دہرایا جائے گا۔ میرا خیال ہے ۔ یہ سب واہمہ ہے، پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔آج کی فوج جنرل کیانی کے فلسفے کے تحت سیاست سے بہت دور جا چکی ہے مگر اس فوج کو پالا پڑ گیا ہے ایک ایسی حکومت سے جو ہر آنے والے دن کسی نہ کسی ادارے کے سربراہ کا ناشتہ کرتی ہے، نادرا،پیمرا،اسٹیل مل ، اسٹیٹ بنک ، کرکٹ بورڈ، اور دیگر کئی اداروں کے سربراہوں کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی، اب آئی ایس آئی کے سربراہ کا تعاقب جاری ہے۔
فوج کے ساتھ تنائو کی ایک وجہ حکومت کی انڈیا پالیسی بھی ہے۔وزیر اعظم کو بھارت کے نئے وزیر اعظم مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میںمدعو کر لیا ہے۔مودی نے کئی ہزار مسلمانوں کا خون پیا ہے۔ دنیا اسے ڈریکولااور قصاب کے نام سے یاد کرتی ہے۔ کل تک امریکہ نے اسے دہشت گرد قرار دے کر اس پر اپنا ویزہ بند کر رکھا تھا۔ہمارے وزیر اعظم اس کی عزت افزائی کے لئے چلے گئے تو وہ بھارتی مسلمانوںکو کیا پیغام دیں گے اور کشمیریوں کو ان کے اس دورے سے کتنا قلق پہنچے گا۔مودی کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر لیں گے۔چلئے قصہ ختم اور پیسہ ہضم!!
مگر اسے کوئی قبول نہیںکر سکتا۔ نہ پاکستانی قوم اور نہ پاکستانی فوج۔حکومت آنے والے دنوںمیں قوم ا ور فوج کے ساتھ تنائومیں اضافے کا سبب بنے ہی بنے۔
اور پھر وہی ہو گا جو منظور خدا ہوگا۔