بہاولپور کے ساتھ ناانصافیوں کی داستان
تاریخ شاہد ہے کہ عظیم انسانوں کے فیصلے دھن دولت کی لالچ یا دھونس اور دھمکیوں سے تبدیل نہیں کرائے جا سکتے۔بھارتی لیڈر شپ نے نواب آف بہاول پور کو اپنی ریاست بہاول پور کی بھارت کے ساتھ الحاق پر آمادگی ظاہر کرنے پر بلینک چیک پیش کرنے کو کہا۔ راجپوتانہ کی ریاستوں کی سربراہی دینے کا وعدہ کیا۔ نواب صاحب نے جواب دیا کہ میری ریاست کا پچھلا دروازہ بھارت کی طرف کھلتا ہے جبکہ اگلا دروازہ پاکستان کی طرف ۔ ہم شریف لوگ اگلا دروازہ استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی لیڈر شپ نے ریاست کا بھارت سے الحاق کے انکار پر دھمکی دی کہ دریائے ستلج اور بیاس کا پانی بند کر دینگے۔ ریاست کا پاکستان سے الحاق پر بھارت نے ستلج اور بیاس کا پانی روک دیا۔ عالمی سطح پر پانی کی بندش کو ختم کرایا گیا۔ ظلم کی انتہا اس وقت ہوئی جب عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے60ء میںدریائوں کے معاہدے کے تحت جنرل محمد ایوب خاں نے ستلج بیاس اور راوی دریائوں کی ٹیل پر بسنے والی مخلوق کے حقوق سلب کرتے ہوئے ان دریائوں کے پانی کو بھارت کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ حیرت کی انتہا یہ ہے کہ 60ء لے کر 2014ء تک دریائے ستلج کی (Recharging) کیلئے آج تک کسی نہر کی تعمیر کا منصوبہ ہی نہیں بنایا گیا جبکہ دریائے ستلج اور بیاس کے پانیوں کی بندش سے سلیمانکی سے ہیڈ پنجند تک کی دریا کی بیلٹ میں پینے کے پانی میں آرسینک شامل ہونے سے ستلج کے کناروںپر آباد انسان ہیپاٹائٹس اور گردے کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرنے لگے ہیں۔ اگر دریا کی ریچارجنگ کے لئے نہر تعمیر نہ کی گئی تو دریائے ستلج اور بیاس کی تہذیب کا حشر ہاکڑہ کی تہذیب سے مختلف نہیں ہو گا۔مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح سے نواب صاحب کے دیرینہ مراسم تھے۔مفکر پاکستان کا نواب صاحب نے وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا۔ آپ قصیدہ گو شاعر نہیں تھے لیکن نواب صاحب پر انہوں نے قصیدہ لکھا۔ نواب آف بہاول پور کو45ء میں جنگی خدمات کے عوض برطانیہ نے پچپن ہزار پائونڈ دیے جو انہوں نے قائد اعظم کو پیش کر دیئے تاکہ وہ پاکستان کے لئے تحریک کو منظم طریقے سے چلائیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے پر کراچی میں ملیر کا محل قائد اعظم کو پیش کیا۔اپنی رولز رائس کار تحفے کے طور پر دی۔ گورنر جنرل کے حلف اٹھانے کے بعد بہاول پور کی فوج نے قائد اعظم کو سلامی پیش کی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اخراجات نواب آف بہاول پور نے ایک سال تک برداشت کئے۔
نواب آف بہاول پور نے 49ء میں بلدیاتی اور 52ء میں انتخابات کرا کر بلدیاتی اورصوبائی سطح کے اختیارات عوام کے حوالے کر کے گورنر کے برابر اختیارات سنبھال لئے۔بہاو ل پور صوبہ کے پہلے وزیر اعلیٰ مخدوم زادہ سید حسن محمود منتخب ہوئے۔54ء میں کرپشن کے الزامات کے تحت انہیں معزول کر دیا گیا۔
55ء میں ون یونٹ کے قیام پر حکومت پاکستان اور نواب صاحب کے درمیان معاہدہ ہوا جس کی رو سے بہاول پور کو ون یونٹ میں شامل کر دیا گیا۔ ون یونٹ ٹوٹنے پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل محمد یحییٰ خاں نے بہاول پور کو پنجاب میں شامل کر دیا۔ جس پر بہاول پوری عوام نے شدیداحتجاج کیا۔ صوبہ بحالی کی پر امن تحریک کے جلوس پر گولی چلائی گئی جس سے دو مظاہرین شہید کر دیئے گئے۔ سینکڑوں کو پابند سلاسل کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ 70ء کے انتخابات بہاول پور میں بحالی صوبہ کی بنیاد پر لڑے گئے۔امیدواروں نے فرید چوک پر حلف اٹھایا کہ وہ کامیاب ہو کر اگر صوبہ بحال کرانے میں ناکام ہوئے تو صوبائی اور قومی نشستوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔73ء کے آئین میں بحالی صوبہ کی ناکامی کے باوجود ان کامیاب ممبران نے استعفے نہ دے کر عوام سے وعدہ خلافی کی۔ اگر یہ استعفے دے کر عوام کی صفوں میں واپس آ جاتے تو کوئی مائی کا لعل صوبہ بحالی کو روک نہیں سکتا تھا۔ سابق صوبہ بہاول پور کے ساتھ نا انصافیوں کی طویل داستان ہے۔ 55ء سے لے کر اب تک 330میل کی پٹی پر تین اضلاع تھے آج بھی تین ہی اضلاع ہیں جبکہ دریائے ستلج کے پار ہر تیس میل پر نیا ضلع قائم ہے ۔جہالت ، بے روزگاری اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے کی داستان کسی سے مخفی نہیں۔ صرف 2013-2014کے بجٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی زیادتیاں اس علاقے سے ہو رہی ہیں۔ میں دوسری تمام آمدنیوں کی بات نہیں کرتا کہ کتنی آمدنی میں سے اس ریجن پر کتنا خرچ ہوا۔ اس ریجن کا این ایف سی ایوارڈ کا حصہ بجٹ ائیرمیں 107ارب بنتا ہے۔ ارباب اختیار کیابتاسکتے ہیں کہ اس میں بہاول پورپر کتنا خرچ ہوا۔۔۔۔؟اگر اس ریجن پر صرف این ایف سی ایوارڈ کا حصہ ہی خرچ کیا جاتا تو علاقے کی شکل ہی بدل جاتی۔ون یونٹ میں شامل ہونے والے ملک کے واحد سرپلس یونٹ کواقتصادی بدحالی اور پسماندگی کاشکارکر دیا گیا۔ محرومیوں کی انتہانے آخر کار 2009ء سے بحالی صوبہ بہاول پور کی تحریک نے پھر جوش مارا جس کے نتیجہ میں پنجاب اسمبلی میں بہاول پور صوبہ بحالی کی متفقہ قرارداد مسلم لیگ (ن) نے منظور کرائی۔2013ء کے انتخابات سے پہلے وزیر اعظم ڈاکٹر میاںمحمد نواز شریف اوروزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بحالی صوبہ بہاول پور کو انتخابی منشور کا حصہ بنا کر بہاول پو رکی عوام سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اکثریت سے کامیاب ہوئے تو بہاو لپور صوبہ بحال کرائیں گے۔بہاول پوری عوام نے نواب صلاح الدین عباسی کی بحالی صوبہ بہاول پورجماعت کو مسترد کرتے ہوئے بہاول پور کے تینوں اضلاع سے مسلم لیگ (ن )کو کامیاب کروا دیا ہے۔اب مسلم لیگ (ن) ہر لحاظ سے پابند ہے کہ وہ بحالی صوبہ بہاول پور میں تاخیر نہ کرے۔
مئی 24ء نواب صاحب کی برسی کا دن ہے۔ حق تو یہ ہے کہ محسن پاکستان کی برسی ہو یایوم پیدائش پاکستان بھر میں منانا چاہئے۔حیرت کی انتہایہ ہے کہ یہ صرف بہاول پور ضلع کی حد تک محدود ہے ۔ محسن پاکستان نواب آف بہاول پو رکے احسانات کا بدلہ اس کی رعایا کے ساتھ نہ ختم ہونے والی ناانصافیوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی یاد تازہ کر دی ہے’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو‘‘۔55ء سے لے کر 2014ء تک احسانات کا بدلہ جس طرح چکایا گیا ہے وہ اس قول پر پورا اترتا ہے۔
کبھی پاکستانیوں نے اس بات کا بھی خیال کیا ہے اگر بہاول پور ریاست پاکستان میں شامل نہ ہوتی تو پاکستان کیسا ہوتا۔بہاو لپور پاکستان کا دل ہے۔دل کے بغیر پاکستان زندہ ہی نہ رہتا۔نواب آف بہاول پور اور بہاول پوری عوام ایسے سلوک کے مستحق نہیں جو ان سے روا رکھا گیا ہے۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ بہاول پور صوبہ بحالی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔۔۔بحالی صوبہ بہاول پور استحکام پاکستان کی ضمانت ہو گا۔